تجارت: خسارہ در خسارہ

رواں مالی سال (دوہزاراکیس بائیس) کے پہلے چھ مہینوں میں ملکی برآمدات پچیس فیصد کی شرح سے بڑھتے ہوئے پندرہ ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں ہیں جو گذشتہ سال اِسی عرصے کے دوران بارہ ارب ڈالر تھیں۔ صورتحال لائق توجہ ہے کہ ایک جانب ملک کی برآمدات میں اضافے کو بیرونی تجارت کے شعبے میں خوش آئند پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے مگر دوسری جانب رواں مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں ملک کا تجارتی خسارہ سوفیصد بڑھ گیا ہے اور مذکورہ چھ مہینوں میں تجارتی خسارہ تقریباً پچیس ارب ڈالر ہے۔ تجارتی خسارے میں اس بے تحاشہ اضافے کی وجہ ملکی درآمدات میں ساٹھ فیصد سے زیادہ کا اضافہ بتایا گیا ہے جو چھ مہینوں میں قریب چالیس ارب ڈالر ہو چکا ہے۔پاکستان کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کی وجہ سے ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ پر بہت زیادہ دباؤ ہے جو موجودہ مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں سات ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ میں برآمدات‘ ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری کے تحت آنے والے ڈالروں کو اکٹھا کر کے دیکھا جاتا ہے کہ ان سے حاصل ہونے والے مجموعی ڈالر بیرون ملک درآمدات اور قرضے کی ادائیگیوں کی صورت میں جانے والے ڈالروں کے مقابلے میں کہاں کھڑے ہیں۔اگر کم ڈالر آ رہے ہیں اور زیادہ جا رہے ہیں اور تو اس کا مطلب ہے ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں ہیں۔اس سال پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کے لئے تیئس ارب ڈالر کی ضرورت ہے جس کے لئے پاکستان نے آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط کے اجرا کے لئے سخت شرائط تسلیم کیں جس کے جاری ہونے کے بعد دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرضے کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہو گا۔ ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر اس وقت قابو پانے کی ضرورت ہے تاہم درآمدات میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے یہ خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ملکی درآمدات میں زیادہ اضافہ پاکستانی روپے پر بھی دباؤ ڈال رہا ہے جو امریکی کرنسی کے مقابلے میں اس مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں ایک سو پچپن روپے سے ایک سو اَسی روپے تک جا پہنچا ہے۔قومی تجارتی خسارے میں سوفیصد اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں بگاڑ کی وجہ سے بے پناہ مشکلات کا شکار ہے اور اس کے باعث رقم کے حصول کے لئے بیرونی ذرائع پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے جیسا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض ہے جو سخت شرائط کی وجہ سے پہلے ہی مہنگائی کی لہر کو جنم دے چکا ہے۔ ان شرائط کے تحت حال ہی ملکی پارلیمان میں پیش کئے جانے والے منی بجٹ کے باعث مزید مہنگائی کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بیرونی تجارت کے شعبے کے ماہرین ملکی برآمدات میں اضافے کو تو خوش آئند قرار دیتے ہیں اور حکومت کی جانب سے اسے بڑی کامیابی قرار دینے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تجارتی خسارے میں اضافہ اصل میں سب سے بڑا مسئلہ ہے جو حکومتی پالییسوں اور مرکزی بینک کی جانب سے لیے جانے والے اقدامات کے باوجود مسلسل بڑھ رہا ہے اور پاکستان کے لئے مزید مشکلات کا باعث بنا ہوا ہے۔ موجودہ مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں تجارتی خسارے میں سوفیصدی اضافے کی وجہ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا دو گنا سے سے بھی زیادہ شرح سے بڑھنا ہے۔ ان چھ مہینوں میں اگر برآمدات میں پچیس فیصد اضافہ ہوا تو اس کے مقابلے میں درآمدات میں ہونے والا اضافہ تریسٹھ فیصد رہا۔ درآمدات میں زیادہ اضافہ پیٹرولیم‘ آٹو موبائل اور کھانے پینے کی اشیا کی زیادہ درآمد کی وجہ سے ہوا ہے بالخصوص پیٹرولیم مصنوعات کی عالمی سطح پر زیادہ قیمتوں نے ملکی درآمدات میں اضافہ کیا ہے۔ اگرچہ برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے تاہم درآمدات میں ہونے والا اضافہ نسبتاً زیادہ ہے جو ملک کے بیرونی تجارت کے شعبے کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ خام مال کی درآمد نے بھی درآمدات کو بڑھایا ہے تاہم یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا خام مال کی درآمد پر خرچ ہونے والے ڈالر اس خام مال سے تیار ہونے والے مال کی صورت میں ملک میں واپس آ رہے ہیں یا نہیں؟ پیٹرولیم کی مصنوعات کی درآمدات نے تجارتی خسارے کو بڑھانے میں کردار ادا کیا تاہم اس کے ساتھ مشینری کی درآمد کا بھی اس میں ایک بڑا حصہ ہے۔ مشینری کی درآمد پیداواری شعبے میں توسیع کے لئے منگوائی جا رہی ہے تاہم فوڈ سیکٹر کی درآمد میں بھی بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے جس کی وجہ گندم اور چینی کی بڑی مقدار میں درآمد ہے۔