شہرکی کہانی

اس شہرکی کیاکہانی سنائیں۔ پھر کیوں سنائیں کیا۔ کیا ہمیں نے سنانا ہے۔ کسی اورکو معلوم نہیں کسی کو معلومات نہیں۔پھر ا س شہرِ سبزکی کہانی ہی کیوں۔کیا دوسرے شہر اس شمار میں نہیں اس قطار میں نہیں۔ ”آکے دیکھو تو سہی میرا شہر کیسا ہے۔سبزہ و گل کی جگہ ہے درو دیوار پہ خاک“۔ (احمد فراز) دیوار و در کے تو اور معنی ہیں۔جہاں تک راہ و شاہراہ کی بات ہے دھول مٹی گرد و غبار اب تین روز کے مسلسل ہونے والے ابروباراں کی دھیمی دھیمی پھوار کے سبب بیٹھ چکے ہیں۔ سڑکیں دُھل کر صاف ہو چکی ہیں اور سبزہ و گل بارش میں نہا کر نکھر چکے ہیں۔ ان کا رنگ اور بھی سرسبزی کی طرف مائل ہے۔مگر جو بات راہ میں حائل ہے وہ تو اور ہے۔شہر کی سرگذشت یہ ہے کہ وارداتیں بڑھ چکی ہیں۔ واردات اور وارداتیں ہر قسم کی ہیں۔سنا تھا کہ سال بدلے گا تو سب کچھ ٹھیک بلکہ ٹھیک ہو جائے گا۔میں اس نئے سال کی بات نہیں کر رہا۔جب پچھلے سال کے پہلے ماہ کی پہلی تاریخ کی تیاری تھی۔ اپنے سے سیاسی تجزیہ نگاروں نے فرما دیا تھاکہ وہ سال خوشحالی کاسال ہوگا۔مگر کہا ں اب تواگلے سال کے پہلے دن کاسورج نکل بھی چکا۔مگر یہاں جتنے برسوں میں گھر گھر ٹانکے ہوئے کیلنڈر کو بدل کر نئے برس کی جنتری لگادیں۔ہمارا وہی حال ہے جو ایک حال ہے اور بے حال ہے۔دو ہزار بائیس میں کچھ امید کی کرنیں اپنے دامن میں چُن لینا برا نہیں۔دیکھو شاید کچھ اچھا ہو جائے۔غالب نے اپنے زمانے کے کسی سال کے بارے میں کہاتھا”اک برہمن نے کہاہے کہ یہ سال اچھا ہے“ دیکھیں اس نئے سال عوام کیا فیض پاتے ہیں۔مگر امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا درست نہ ہوگا۔کیونکہ امید پر تو دنیاقائم ہے۔مگر ہمیں معلوم کہاں کہ امید خود ہمارے اعمال پر قائم ہے۔اگر ہم اچھے ہوئے تو یہ سال برا کیوں ہوگا۔اس برس تو پہلی تاریخ کو پٹرول کے مہنگا ہونے کی خبر نے دلوں کو مزید دھڑکا دیا تھا۔ اب کہا گیا ہے کہ آئندہ مہینے سے مہنگائی کم ہو جائے گی۔ چلو تاریخ پہ تاریخ دی جا رہی ہے۔دیکھیں وہ تاریخ آخر آ ہی جائے گی جس دن ہمیں ان غموں اور مصیبتوں سے نجات مل جائے۔کہتے ہیں کہ باقی ملکوں میں بھی مہنگائی ہے۔مگر ہم باقی ملکوں میں تو نہیں رہ رہے۔ہمیں تو اس وطن سے سروکار ہے۔اس وطن میں ارزانی کو فروغ دیناہے۔مگر ایک طرف مہنگائی نے مار دیا تو دوسری جانب اب کورونا ہے۔ پھر اس کے بعدجہاں ایمی کرون کا نام سنا وہاں پانچویں لہر کے اس تیسرے مرحلے پر ایک اور وائرس کی خوفناک آواز کانوں کے پردوں کو پھاڑنے لگی ہے۔ اب فلورونا بھی آ گیا ہے کہتے ہیں کہ یہ کورونا اور فلو کا مکس ہے۔اب ایسے برے مالی حالات میں نئے سال کے آنے سے کیا اچھا فرق پڑے گا۔ کیونکہ حال تو ویسا ہے کہ جیسا تھا۔وارداتیں نہیں ہوں گی تو کیا ہوگا۔کس موڑ پر موبائل اُچک لیا گیا کس راستے پر موٹر سائیکل چھین لیا گیا اس کو بھول جا۔سچ تو یہ ہے کہ قانون کی پاسداری کی روش اب نہیں رہی، ہر کسی کی کوشش ہے کہ وہ قانون کو بائی پاس کرکے اپنا مقصد حاصل کرے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی معاشرے کی خوشحالی بھی وہاں قانون کی پاسداری کا باعث ہوتی ہے اور یہ کچھ زیادہ غلط بھی نہیں کہ جب ہر کسی کو سب کچھ میسر ہو تو پھر اسے دوسروں سے چھیننے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی، یہ الگ بات ہے کہ اپنے حصے پر صبر کرنے کی صفت بھی تو ہم میں نہیں رہی، اچھی صفات اورعادات کاایک بڑا خزانہ ہم کھو بیٹھے ہیں جس کا خمیازہ ہر کسی کو بھگتنا پڑ رہا ہے یعنی جو برائی معاشرے میں پھیلتی ہے چاہے اس کاپھیلانے والا کوئی بھی ہو اگر اسے نہ روکا جائے تو نقصان ہر کسی کو اٹھانا پڑتا ہے اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ معاشرے میں رہتے ہوئے میں اسکے منفی اثرات سے محفوظ رہوں گا۔ ”ان باتوں کو دہراناکیا۔جو بیت گئی سو بیت گئی“۔