اپوزیشن کا لانگ مارچ

اپوزیشن کے بعض لیڈربڑے اعتماد کے ساتھ یہ بات کر رہے ہیں کہ حکومت بس چند دنوں کی مہمان ہے اور جلد اس کی بساط لپیٹی جا رہی ہے،اپوزیشن کی طرف سے 23مارچ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا جا چکا ہے اور وہ اس کی تیاریوں میں بھی مصروف ہے، آئینی طور پر تو حکومت کا بوریا بستر تب ہی لپیٹا جاسکتا ہے اگر اس کی اتحادی جماعتیں پارلیمان میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آ نے کی صورت میں اس کی حمایت سے دستبردارہو جائیں یا بصورت دیگر تمام اپوزیشن جماعتیں بیک وقت اسمبلیوں سے استعفوں کا اعلان کر دیں یہ دونوں ممکنات سر دست نظر نہیں آ رہے،لانگ مارچ کے لفظ کا بھی یار لوگوں نے مذاق بنایا ہوا ہے،لانگ مارچ نہ ہوا بچوں کا جیسے کھیل ہو گیا،حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک میں چراغ لے کر بھی ڈھونڈو تو ماؤ زے تنگ جیسا لیڈر کوئی نظر نہیں آتا لانگ مارچ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے ماؤزے تنگ جیسا جگرا رکھنے والا لیڈر ضروری ہے جو سر دست ہم کو اس ملک میں دکھائی نہیں دے رہا۔ ادھر پاکستان کا کہنا ہے کہ سرحدی باڑ پر افغان طالبان کا مؤقف تبدیل کرانے کیلئے بات چیت جاری ہے‘ افغانستان کیلئے جوکر سکتے تھے کررہے ہیں‘ہم امن اور بہتری چاہتے ہیں‘بھارت نے اس فورم پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہاہے‘پاکستان سارک کی میزبانی کیلئے مکمل تیارہے‘بھارت پاکستان کو نیچادکھانے کیلئے ہٹ دھرمی پر اتراہواہے۔ افغان حکومت پر یہ بھی واضح کردینا چاہئے کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے سے انہیں خوش ہونا چاہئے کہ اس سے جتنا ہمیں فائدہ ہے اتنا ہی ان کو  بھی فائدہ ہے کیونکہ اس باڑ سے تو ان مبینہ دہشت گردوں کی افغانستان میں انٹری بڑی مشکل ہو جائے گی۔دریں اثناء ایک رپورٹ میں معلوم ہوا ہے کہ امریکی فوج نے افغانستان اور مشرق وسطی میں دو دہائیوں پر محیط جنگ کے دوران 140 کھرب ڈالر خرچ کئے اوراسلحہ سازوں، ڈیلرز اور ٹھیکیداروں کو مالا مال کردیا۔ رپورٹ میں اس بات کی متعدد مثالیں شامل ہیں کہ کس طرح امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ ایسے منصوبوں پر ضائع کیا گیا جو کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ایسے ہی ایک منصوبے پرپینٹاگون نے 60 لاکھ ڈالر خرچ کئے جس نے افغانستان کی مارکیٹ کو فروغ دینے کے لیے نو اطالوی بکرے درآمد کئے تھے۔ یہ منصوبہ اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکا۔پانچ دفاعی کمپنیوں لاک ہیڈ مارٹن کارپوریشن، بوئنگ کمپنی، جنرل ڈائنامکس کارپوریشن، ریتھیون ٹیکنالوجیز کارپوریشن اور نارتھروپ گرومن کارپوریشن نے ہتھیاروں، سپلائیز اور دیگر سروس کے لیے 2.1 ٹریلین ڈالر کا بڑا حصہ لیا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک نوجوان افغان مترجم نے امریکی افواج کو بستر کی چادریں فراہم کرنے کا معاہدہ کیا اور اس سے حاصل ہونے والی کمائی سے ٹی وی اسٹیشن سمیت ایک گھریلو ایئر لائن بھی بنا لی۔رپورٹ کے مطابق کیلیفورنیا کے تاجر نے کرغزستان میں ایک بار چلاتے ہوئے ایندھن کا کاروبار شروع کیا جس سے اربوں کی آمدنی ہوئی۔اوہائیو کے دو آرمی نیشنل گارڈز نے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا جو فوج کو افغان ترجمان فراہم کرتا ہے، یہ امریکی فوج کے اعلی ٹھیکیداروں میں سے ایک بن گیا،  اس وقت 26ہزارسے زیادہ ٹھیکیدار افغانستان میں تھے اور فوجیوں کی تعداد 9 ہزار 800تھی۔4 برس بعد جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ چھوڑا تب تک 2500 فوجیوں کے ساتھ 18 ہزارٹھیکیدار افغانستان میں موجود تھے۔ افغانستان کو موجودہ سنگین حالات سے نکالنے کے لئے دنیا بھر کے ممالک کو آگے آنا ہوگا، طالبان حکومت کا استحکام وقت کی اہم ضرورت ہے، افغان عوام بہت سخت حالات سے گزرے ہیں اور انہوں نے اپنے ملک کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں لہٰذا ان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے ہنگامی اقدامات کئے جائیں۔