کورونا وباء، موسمیاتی تبدیلی وآلودگی، بڑھتی ہوئی غربت اور نقل مکانی، دہشت گردی، بڑی ریاستوں کے مابین تناؤ، نئے بین الاقوامی تنازعات اورمہلک خود مختار ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خدشات کے باعث 2022 ء بھی زیادہ تر انسانوں اور حیوانات کیلئے ایک ہنگامہ خیزاور خطرناک سال ہوسکتا ہے۔اس برس چین اور روس کا باہمی اتحاد اور ارتباط بڑھے گا اورامریکہ اور نیٹو کے ساتھ ان کے تعلقات میں تلخی جاری رہے گی۔ شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیاں کشمکش جاری رہے گی۔ فلپائن نئے صدر کا انتخاب کرے گا۔چین میں فروری میں سرمائی اولمپکس کا آغاز ہو رہا ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں قومی کانگریس، جو سال کے آخر میں ہونے والی ہے، میں چینی صدر شی جن پنگ تیسری پانچ سالہ مدت حاصل کرنے کی امید کر رہے ہیں۔ مغربی تجزیہ کاروں میں اس بات پر شدید اختلاف ہے کہ شی کی پوزیشن کتنی محفوظ ہے۔ سست رفتار معیشت، قرضوں کا بحران، عمر رسیدہ آبادی، ماحولیاتی اور آب و ہوا سے متعلق بڑے چیلنجز اور پڑوسی ممالک کے ساتھ معاہدہ کرکے چین کو”کنٹرول“کرنے کی امریکی قیادت کی کوششیں، ان کی مشکلات ہیں۔ پھر بھی 2022 ء میں چین کے عالمی اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ میں اضافے کی کوششیں جاری رہیں گی۔ اگر چین تائیوان پر فوجی حملہ کرتا ہے، جسے امریکہ نے ناقابل قبول قرار دیا ہے، تو امریکہ چین تعلقات بڑے تناؤ کا شکار ہوسکتے ہیں۔ مگر چین اور روس کے خلاف مزاحمت کرنے کیلئے بائیڈن کو زیادہ حمایتی نہیں مل سکیں گے کیونکہ افغانستان سے انخلاء، آسٹریلیا کے ساتھ جوہری آبدوزوں کے معاہدہ پر اپنے قریبی اتحادیوں سے صلاح مشورے نہ کرنے سے فرانس اور دیگر یورپی اتحادی ان سے ناراض ہیں اور ملک کے اندر بھی ریپبلکن پارٹی پھر کانگریس ایک یا دونوں ایوان میں حاوی ہوسکتی ہے جس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔بھارت، چین کا سب سے بڑا علاقائی حریف ہے تاہم ان دونوں کے ہمالیائی سرحدی تنازعات اب بظاہر اتنے خطرناک نہیں ہیں جو اس برس دو طرفہ تعلقات میں وسیع تر بگاڑ پر منتج ہوں۔ چین کا فروری 2020 ء میں لداخ کے علاقے اور سرحد پر، جس پر اس کا 1959 ء سے دعویٰ تھا، قبضہ ہوگیا جبکہ بھارت اس پر خاموش ہے تو وہاں دونوں کی کشیدگی میں کمی رہے گی مگر بھارت امریکہ کے مقابلے میں روس سے قریب ہورہا ہے۔ انڈیا نے حال ہی میں امریکی دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے روس سے ایس 400 میزائل سسٹم خریدا ہے جس پر امریکہ معترض ہے اور اسے ’خطرناک‘ قرار دیا ہے اور بھارت کواڈ اتحاد کا واحد رکن ملک ہے جس نے چین میں سرمائی اولمپکس کا امریکہ کی طرح سفارتی بائیکاٹ نہیں کیا۔افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوچکی ہے۔ اگرچہ پاکستان، روس، چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے کابل میں کھلے ہوئے ہیں۔ افغانستان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈیوڈ بیسلے بقول 23 ملین لوگ بھوک کا شکار ہیں اور اگلے چھ ماہ تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ امید کی جانی چاہئے امریکہ اور مغربی دنیا طالبان کی پالیسیاں اور افغان عوام کی ضرورتیں جدا سمجھنا شروع کریں گے، افغانستان کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گے اوران کے ساتھ تعلقات کار قائم کرلیں گے۔ بھارت کو پاکستان کے ساتھ احترام، برابری اور نیک نیتی کے ساتھ باہمی مذاکرات کے ذریعے تمام تصفیہ طلب مسائل حل کرنے چاہئیں مگر اس نے الٹا کشمیر کو حاصل آئینی حیثیت ختم کردی۔ اب کشمیراس کا واحد علاقہ ہے جس کی کوئی منتخب حکومت نہیں ہے، وہاں بدامنی اور غربت بڑھ رہی ہے، ہندو پنڈت یہاں نہیں آسکے اور تشدد جاری ہے۔ سری نگر کی جامع مسجد نمازِ جمعہ کیلئے اب بھی بند ہے۔مختلف مثبت اور منفی وجوہات کی بنا ء پر مشرق وسطیٰ اس برس عالمی سرخیوں میں رہے گا۔ نومبر میں فٹ بال کا عالمی ورلڈ کپ قطر میں شروع ہوگا۔ امید کی جاتی ہے یہ خلیج کیلئے تجارت، سیاحت اور ترقی پسند پہچان کا ذریعہ بنے گا۔مشرق وسطیٰ میں لبنان، جنگ زدہ یمن اور انتشار کا شکار لیبیا سب ناکام ریاست بننے کے دہانے پر پہنچ رہے ہیں۔ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تین معاملات ابھی تک حل طلب ہیں۔ غرب اْردن اور غزہ کی پٹی کا کتنا حصہ فلسطین کو دیا جائے؟ بیت القدس کیسے تقسیم کیا جائے؟ بے دخل فلسطینیوں کی آبادکاری کہاں اور کیسے کی جائے؟ اسرائیل بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینی علاقوں پر قابض ہے، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا مرتکب ہے، وہاں یہودیوں کی غیر قانونی آبادکاری کررہا ہے اور اس قبضے اور بے دخلی کی مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کا اندھادھند قتل عام کررہا ہے لیکن اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ کیا عالمی برادری اسرائیل سے فلسطینیوں پر ظلم وستم اور ان کی زمینیں ہتھیانے کا سلسلہ ختم، تمام مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی اور ریاست فلسطین کو تسلیم کروالے گی۔ بظاہر دو ریاستی حل، انصاف اور پرامن بقائے باہمی ہی امن کے حصول کا واحد راستہ ہے۔صدر بائیڈن ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنا اور جوہری معاہدے کو بحال کرنا چاہتے ہیں لیکن فریقین میں اختلافات برقرار ہیں۔ ایران کا موقف ہے امریکہ پہلے ایران پر سے پابندیاں ہٹادے جبکہ امریکہ کہتا ہے وہ عائد پابندیوں کو صرف اسی صورت میں ختم کرے گا جب ایران جوہری پیداوار کی 2019 ء والی حدود پر واپس چلاجائے اوروہ معاہدے کی خلاف ورزی بند کرے۔ سوال یہ ہے اگر جلد معاہدہ نہیں ہوپاتا توکیا ہوگا۔امریکہ کہتا ہے اگر ایران اپنا راستہ نہیں بدلتا تو ہم متبادل راستوں سے رجوع کے لئے تیار ہیں،خطے میں ایران اور اسرائیل کی جنگ بارے بھی خدشات بڑھ رہے ہیں۔ اسرائیل 2015 ء کے جوہری معاہدے کی بحالی کے مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں فضائی حملوں کی دھمکی دیتا رہا ہے۔ کیا امریکہ اس جنگ کو روک سکے گا اور کیا یورپی ممالک امریکہ اور ایران کے مابین جوہری مذاکرات جاری رکھ اور تنازعہ حل کرسکیں گے۔ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کی پارٹی اقتدار میں 20 سال مکمل کرنے والی ہے۔ وہ اندرون ملک اپنی پوزیشن مضبوط کررہے ہیں۔