پاکستان کی جانب سے افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ”پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا عمل جاری ہے۔“ سرحدی باڑ حکمت ِعملی کو دیکھا جائے تو یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کے بھی مفاد میں ہے کیونکہ افغانستان کے موجودہ طالبان حکمران پوری دنیا کو اِس بات کی یقین دہائی کروا چکے ہیں کہ وہ افغان سرزمین اور افغان وسائل کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اِس تناظر میں اگر پاکستان افغانستان کے ساتھ غیرروایتی راستوں کو ختم کرتے ہوئے آمدورفت کو دستاویزی اور باضابطہ بنا رہا ہے تو اِس میں افغانستان کا بھی بھلا ہے کہ غیرریاستی عناصر افغانستان کے وسائل کا استحصال نہیں کر پائیں گے۔ پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ افغان حکومت اور پاکستان کے درمیان زیادہ اختلافات نہیں لیکن سرحد پر پیش آنے والے چند ایک واقعات کو غیرضروری طور پر اچھالا جا رہا ہے۔ پاک افغان بین الاقوامی سرحد پر لگائی باڑ دونوں اطراف بسنے والے لوگوں کو سکیورٹی فراہم کرنے اور آمد و رفت و تجارت کو منظم و دستاویزی کرنے کے لئے اشد ضروری ہے جس کا مقصد مقامی لوگوں کو دراندازوں اور جرائم سے محفوظ بنانا ہے۔ پاکستان کا قیام ’تین جون اُنیس سو چھیالیس‘ کے قانونِ آزادی ہند کے تحت عمل میں آیا تھا اور اس سے قبل ”بارہ نومبر اٹھارہ سو ترانوے‘‘میں برطانوی نمائندے ڈیورنڈ اور اس وقت کے افغان فرمانروا امیر عبدالرحمان نے سرحد کے تعین کے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ برطانوی نمائندے ڈیورنڈ ہی کے نام کی بنا ء پر اس سرحدی لکیر کو ”ڈیورنڈ لائن‘‘کا نام دیا گیا تھا جسے دنیا مستقل بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرتی ہے اور اِسے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد تصور کیا جاتا ہے۔ معاہدے کی رو سے افغانستان کو اس امر کا پابند بنایا گیا تھا کہ وہ کسی صورت ڈیورنڈ لائن کے دوسری طرف مداخلت نہیں کرے گا۔افغانستان کے تمام حکمران اسے نہ صرف عالمی سرحد تسلیم کرتے رہے ہیں بلکہ مختلف مواقع پر ہونے والے معاہدوں میں اِس کی عالمی سرحد جیسی حیثیت کی توثیق کی جاتی رہی ہے لیکن سابق افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے دور میں پاکستان دشمنوں نے اَفغان سرزمین اور اِس کے وسائل کا استعمال کرنا شروع کیا اور دہشت گرد گروہوں نے افغانستان میں اپنے مراکز رکھتے ہوئے پاکستان میں دراندازی کی۔ ان حالات میں اور سرحد پار سے دراندازی روکنے کے لئے پاکستان نے مذکورہ ڈیورنڈ لائن پر خاردار تار لگانے کا فیصلہ کیا جس پر اشرف غنی حکومت نے احتجاج کیا تھا اور بعض مواقع پر حملے بھی کئے تاہم پاکستان کا مؤقف یہی رہا کہ یہ ڈیورنڈ لائن تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحد ہے جسے افغان حکمرانوں نے نہ صرف تسلیم کر رکھا ہے بلکہ اس ضمن میں ہونے والے معاہدوں پر بھی دستخط کر رکھے ہیں لیکن وقت کے ساتھ یہ قضیہ ختم نہیں ہو رہا۔ پاکستان سرحدی باڑ لگانے کا چورانوے فیصدی کام مکمل کر چکا ہے‘امن کی اِس باڑ کو نہ صرف مکمل ہونا چاہئے بلکہ اِسے قائم بھی رہنا چاہئے جو پاکستان کی داخلی سلامتی اور امن و امان کیلئے انتہائی ضروری ہے۔