اتنی فراغت کسے نصیب

آج کل بیشتر لوگوں کے پاس جس چیز کی کمی ہے وہ فراغت ہے۔کوئی کہا ں کس مسئلے میں پھنسا ہواہے۔ کوئی کس جگہ اور جگہ جگہ اپنے پسینوں میں نہایا ہوا ہے۔ پھر وہ بھی سردی کی ان شاموں میں اور روز ابر و شبِ ماہتاب میں۔اتنی مصروفیت بھی نہ ہو کہ فراز کی طرح دل سے ہوک اٹھے ”مجھ سے ملنے نہیں دیتے مجھے ملنے والے۔صبح آ جائے کوئی شام کو آ جائے کوئی“۔ لیکن جو بھی ہوجیسا بھی ہو اگروقت نہیں ہوتا تووقت نکالنا پڑتا ہے۔بھلا اپنوں کو ان جھمیلوں میں کیوں الجھایا جائے۔اپنوں کے لئے انھیں مصروفیات میں سے ٹائم نکالنا ہوگا۔کیونکہ اپنا تو اپنا ہے۔جگر جگر است دگر دگر است۔اپنوں سے مراد جو دل کے نزدیک ہوں۔دوست یار ہوں رشتہ دا رہوں۔یہ سردی کی موجودہ برفیلی رُت تو ہر راہ میں مزاحمت کر رہی ہے۔جس سمت کو قدم اٹھائیں روز کی بڑھتی ہوئی سردی آدمی کو کہیں جانے نہیں دیتی اور کہیں کا چھوڑتی نہیں۔اگر کام کاج نہ ہو باہر جانا پڑے تو خیر وگرنہ بستروں میں دبکے بیٹھے رہو آگ پر ہاتھ تاپتے رہو۔آگ کے بڑے الاؤ روشن کرو۔ اس کو حلقہ کئے بیٹھے رہو۔ دھوپ تلے بھی مونگ پھلیا ں چھیل چھیل کر قہوہ کی سرکیاں لیتے ہوئے وقت گذاری کرنا چاہئے.۔مونگ پھلیاں اس لئے کہ چلغوزہ کی بہ نسبت سستی ترین ہیں۔گپ شپ کے دوران میں اس کے ساتھ ٹائم پاس کیا جا سکتا ہے۔حلوہ اگر پکا لیا جائے تو کیا بات۔یہی مونگ پھلیاں چھیل کر اس میں ڈال دیں۔وہ بھی بھن کر لال ہوجائیں گی اور لذت زباں کو اور مزا دیں گی۔کیونکہ سالوں پہلے سے چلغوزہ تو عام آدمی کی دسترس سے دور ہو چکا ہے۔پانچ روپے میں ایک چلغوزہ پڑتا ہے۔مگر کھانے والے تو کھاتے ہیں اور ہر طرح سے نوشِ جاں کرتے ہیں۔دھوپ میں بیٹھنے کی جو بات ہوئی وہ تو کچھ دنوں بعد آنے والے دنوں کی ہے۔کیونکہ فی الحال بارشوں کا دورانیہ طویل ہے۔ملک کے چپے چپے پر بارش او رٹھنڈی ہواکی لہریں ہیں۔کبھی تازہ ہوا چلتی ہے تود ل میں لہر سی اٹھتی ہے اور ہوک بن کر اس سردی کی راتوں میں سینے سے جوں تیر ٹھنڈی آہ ہو کر دل کے زخموں کو گرما جاتی ہے۔ان دنوں تو ہر طرف یا تو برفیلی فضاء ہے یابرف باری کا سماں ہے۔من چلے چل پڑتے ہیں۔ آگے پیچھے دیکھتے نہیں کیونکہ برف باری دیکھتے ہیں۔ میں کہوں ان کے دل کا زور بہت ہے۔بچپن والد کی سرکاری ملازمت میں ہنگو‘پاڑہ چنار‘ایبٹ آباد اور گلیات میں گذرا۔مگر اب سفید بالوں کے عالم میں سردی کی سہارنہیں رہی۔ برسوں پہلے ایک بار مری گئے تھے جب ملکہ کوہسار نے اپنے گرد سفید چادر لپیٹی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن برسوں بیتے ایسی غلطی دوبارہ نہ کی۔ کیونکہ ہم میدانی علاقے کے نازک مزاج شہری بابو ہیں سو ہمیں یہ ٹھنڈک کب برداشت ہونے والی ہے۔ کتنی ہی پارٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔دوست مل کر جانے کس کس سمت اوپری علاقوں میں برف پوش آب ہوا میں روپو ش ہیں۔خوشی خوشی جاتے ہیں وہاں خود کھانے پکاتے ہیں۔ہم تو اگر اس بار چلے گئے تو شاید واپسی پر ہم آئیں نہیں۔ خیر شہر میں ہوتے سوتے اس موسم میں اپنوں سے ملنے کی سبیل نکالنی چاہئے۔کیونکہ ”یہ موسم چلے گئے تو ہم فریاد کریں گے“ان اداسیوں کے موسمو ں کو یونہی رائیگاں نہیں جانے دینا چاہئے۔کسی درد کو پکارنا چاہئے کسی بھولی بسری یاد کو آواز دینا چاہئے۔اتنی بھی مصروفیت اچھی نہیں کہ بقول محسن نقوی ”اتنا مصروف ہوں جینے کی ہوس میں محسن۔سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی مجھ کو“۔زمانہ جتنا ترقی کی راہ پر آگے آگے گامزن ہے بندہ اتنا ہی فراغت کو ترس رہا ہے۔کوئی کہاں اپنے غموں میں غلطاں اور کوئی کہاں۔دن گذار لینے کے بعد سردی کی شام جلد ہی سر پر پہنچ جاتی ہے۔ساتھ چاند ستارے لئے کسی مانگ میں افشا ں بھرنے کو اور کسی کو اپنے بیتے دنوں کی یاد دلانے کو۔”د ل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن۔بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے“(غالب)۔وہ فرصت کے رات دن اب کہا ں۔