سارک سمٹ اور بھارت کی ہٹ دھرمی

بھارت کا امن دشمن رویہ وہ خطرہ ہے جس سے اس وقت برصغیر کے وہ ممالک خاص طور پر نبرد ازما ہیں جن کے بھارت کے ساتھ سرحدات جڑی ہوئی ہیں‘چاہے وہ چین ہے،یا پھر پاکستان، نیپال اور بھوٹان۔ سب بھارت کے رویے سے دلبرداشتہ ہیں۔حال ہی میں بھارت نے سارک سمٹ میں شرکت کی پاکستانی تجویز مسترد کر کے ایک بار پھر اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیاہے۔پاکستان کا یہ اصولی موقف ہے کہ بھارت سارک کو بے وقعت نہ کرے‘گزشتہ دنوں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سارک کے تمام رکن ملکوں کو اسلام آباد میں 19 ویں سمٹ میں شرکت کے ایک لیے ایک بار پھر مدعو کرتے ہیں۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سارک پاکستان کی نظر میں علاقائی تعاون، علاقائی اقتصادی سرگرمیوں اور علاقائی تجارت کیلئے ایک اہم فورم ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس فورم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔اگر بھارت اسلام آباد نہیں آنا چاہتا ہے تو اب تو نئے ذرائع موجود ہیں وہ اس میں ورچوئلی شامل ہو سکتا ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھااگر بھارت خود نہیں آنا چاہتا تو دوسروں کو تو نہ روکے، دوسروں کو تو آنے دے۔ اس فورم کو بے معنی اور بے وقعت تو نہ کرے۔سفارتی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کا رویہ ناقابل فہم ہے۔خود بھارت کے اندر سے اس ضمن میں آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ بھارت کو چین سمیت دیگر ملکوں کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنے کے حوالے سے پڑوسی ملکوں کی اسٹریٹیجک خودمختاری کا احترام کرنا چاہئے، واضح رہے کہ سارک آٹھ ممالک بھارت، افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ بھوٹان‘ مالدیپ‘ نیپال‘ پاکستان اور سری لنکا پر مشتمل ایک علاقائی بلاک ہے۔ سارک اتفاق رائے کے اصول پر کام کرتا ہے۔ اس کا سربراہی اجلاس عام طور پر ہر دو سال پر منعقد ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ایک رکن ملک بھی اس میں شرکت سے انکار کر دے تو سمٹ نہیں ہو سکتا‘سارک کا آخری سمٹ کٹھمنڈو میں 2014 میں ہوا تھا۔ اس کے بعد سے یہ بلاک بہت زیادہ موثر نہیں رہ گیا ہے۔سارک کے 19 ویں سمٹ نومبر 2016 میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والا تھا۔ لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اور شرکت سے انکار کے بعد سمٹ کو غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرنا پڑا۔گزشتہ برس ستمبر میں نیویارک میں اقو ام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی رکن ممالک کی طرف سے سارک وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد کرنے کی تجویز سامنے آئی تھی تاہم یہ بھی بھارت کے نامناسب اور ہٹ دھرمی کے روئیے سے نہ ہوسکا۔اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری کو بھارت کے رویے کا نوٹس لینا چاہئے اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پائمالی کا جوسلسلہ جاری ہے اس پر بھی اب مزید خاموشی اور مصلحت کے رویے کو ترک کرے۔ اس وقت دیکھا جائے تو بھارت نہ صرف جنوبی ایشیاء میں امن کا دشمن اور ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے بلکہ عالمی امن کیلئے بھی بھارت کے رویے سے خطرات کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دو ایسے پڑوسی ممالک ہیں جو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ایک طرف اگر پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا ایک موثر اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حفاظتی نظام ہے تو دوسری طرف بھارت میں رواں سال کے دوران کئی مواقع پرخطرناک تابکار مادے کی سمگلنگ کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ مودی جیسی ہندو انتہاء پسند حکومت سے کچھ بھی بعید نہیں۔اس لئے ہر وقت یہ خطرہ موجود رہتاہے کہ بھارت اپنے کسی بھی پڑوسی کے ساتھ جنگ چھیڑ کر خطے کے تہہ وبالا کردے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ تو امتیازی رویہ اوران کی زندگی کو اجیرن بنانے کی روش عرصہ دراز سے جاری ہے تاہم اب دیگر اقلیتوں یعنی عیسائیوں اور سکھوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا گیا ہے اور گزشتہ دنوں جہاں پنجاب میں ایک سکھ گوردوارے میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی وہاں ایک گرجے میں بھی ہندو انتہا پسندوں نے گھس کر فساد برپا کیا۔تاہم افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ اس تمام انتہاپسندانہ ماحول کے باوجود بھارت کے ساتھ ان یورپی ممالک کے تعلقات بدستور خوشگوارہیں جو باقی ممالک پر باریکی بینی سے نظر رکھے ہوئے ہیں اور معمولی واقعے پر پابندیاں عائد کردیتے ہیں۔ عالمی برداری خاص کر یورپی اور امریکہ کو اب دوغلا رویہ ترک کرکے بھارت کو راہ راست پر لانے کیلئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔