پشاور کی طعام گاہیں 

بات چیت میں طعام گاہ یا طعام خا نہ کیلئے ریسٹورنٹ کا لفظ مستعمل  ہے غلط العام کے طور پر ہو ٹل بھی بو لا جا تا ہے یہاں پختہ چائے فروشوں اور قہوہ خا نوں سے ہٹ کر پشاور شہر کی چند ایسی طعام گاہوں کا ذکر کیا جا تا ہے جو وقت گذر نے کے ساتھ بھلا دیئے جائینگے کیونکہ ہر روز نیا سورج نئے پروگرام اور نئی دکا نیں لیکر طلوع ہوتا ہے مجھے اور میرے دوستوں کو نا ز سینما روڈ پر مسجد مہا بت خان کے صدر دروازے کے بائیں طرف واقع چھوٹی سی تنگ مگر خوب صورت طعام گاہ یا د آتی ہے اس کا نا م بخا ری پلا ؤ تھا 1971ء میں افغا نی پلا ؤ یا کا بلی پلا ؤ پشاور میں متعارف نہیں ہوا تھا افغان یا کا بلی اشپز (Ashpaz) بھی نہیں ملتے تھے بخا ری پلاؤ اپنی نو عیت کا انو کھا پکوان تھا چھوٹی سی طعام گاہ میں چھوٹی چھوٹی کر سیاں ہوا کر تی تھیں صاف ستھری میزیں تھیں چھوٹی چھوٹی خوب صورت پلیٹیں اور خوب صورت چمچے ہوتے تھے کھا نا چننے کا انداز بھی نیا اور اچھو تا ہوا کرتا تھا جن لو گوں نے بخا ری پلا ؤ کا مزہ ایک بار چکھا وہ اس کو کبھی نہیں بھول سکتے اس طرح کا ایک طعام خانہ قصہ خوانی کے  پیچھے تنگ گلی میں تاوانی پلا ؤ کے نا م سے ہوا کرتا تھا ایک سفید ریش بزرگ کھڑے کھڑے دیگ سے گرم گرم پلاؤ پلیٹوں میں ڈال کر تقسیم کر تے اور گا ہک یا کھڑے کھڑے تنا ول کر تے یا گلی کی نکڑپر رکھی صندلیوں پر بیٹھ کر کھا تے پلا ؤ بانٹنے والا بزرگ تاوانی پلاؤ بھی پلا ؤکی آواز لگا تا تو ان کی آواز گلی کے آخر تک سنا ئی دیتی گا ہک اس کی طرف کھینچے چلے آتے یہ اپنے طرز اور سٹا ئل کا سما رٹ سسٹم تھا جس میں نہ کمرہ نہ کر سی نہ میز نہ دیگر لوا زمات اس کے باو جو د گا ہکوں کی قطار لگی رہتی تھی فردوس سینما روڈ پر جلیل کبا بی کا نا م آج بھی مشہور ہے لیکن آج کے ائیر کنڈیشنڈ ہال میں وہ مزہ نہیں جو چند سال پہلے تھا جلیل کبا بی کے کباب کی خو شبو دور سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر تی تھی ان کا عام کباب بھی فر مائش پر تیار کئے گئے کباب سے زیا دہ لذیز ہوتا تھا۔ 1971ء میں شعبہ بازار کو تکہ کڑا ہی کا مر کز سمجھا جا تا تھا چارسدہ، مر دان اور نو شہرہ سے شہریا ”خا ر“ آنے والے شعبہ کی کڑا ہی ضرور کھاتے تھے پھر نمک منڈی کی بھی شہرت ہو گئی اور نمک منڈی میں تکہ اس قدر مشہور ہوا کہ اسکی شاخیں کھل گئیں راولپنڈی‘اسلا م آباد اور لا ہور سے آنے والے مہمان بھی میزبا نوں سے تکہ کڑاہی کی فرما ئش کرنے لگے 1970ء کی دہا ئی میں سینما روڈ پر ایک طعام گاہ بنی جو دیکھتے ہی دیکھتے دور دور تک مشہور ہوئی اس کا نا م سلا طین تھا یہاں قیام گا ہ بھی تھی طعام گاہ بھی اور یہ پہلی طعام گاہ تھی جو ائیر کنڈیشنڈ ہال کی سہو لت سے مزین تھی بڑے آفیسر سیا ستدان اور اراکین پا ر لیمنٹ بھی یہاں دعوتوں کا اہتما م کر تے تھے اس کا مینیو یا طعامیہ متفرق تھا متوسط طبقے کے لئے سستا تھا اعلیٰ طبقے کے لئے مہنگا تھا شعبہ کی کڑا ہی سلاطین میں بھی ملتی تھی جو اس کی نما یاں خصو صیت تھی سینما روڈ سے متصل خیبر بازار میں پشاور کے مشترکہ مہمند طعام گا ہوں کے چین کی ایک طعام گاہ  تھی جو مخصوص تہذیب اور رکھ رکھا ؤ کے لئے مشہور تھی اس کے ویٹر بہت مستعد اور مہذب ہوا کر تے تھے وہ گا ہکوں کے ساتھ ذا تی تعلق قائم کر تے تھے اور گا ہکوں کو پہچا نتے تھے پھر کیش کا ونٹر پر آتے وقت ویٹروں کی مخصوص آواز میں بل کی پکار بھی مزہ دیتی تھی ویٹر جس طرح گا ہک سے آر ڈر لیکر استاد کو مخصوص آواز میں پکار تے تھے اسی طرح کیش کا ونٹر پر پہنچتے وقت بل کی مخصوص آواز دیتے تھے وہ لطیفہ بھی اس طعام گاہ کا تھا کہ ”کھا یا پیا کچھ نہیں گلا س توڑا آٹھ آنے“ آج کا پشاور بہت تر قی کر گیا ہے مگر گزشتہ کل کا لطف آنے والے کل کے نصیب میں نہیں۔  وقت گزرنے کے ساتھ بہت کچھ سامنے آتا ہے اور پرانی چیزیں نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے یہی زندگی کا قصہ ہے اور پشاور شہر کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے جو پشاور آج لوگوں کے سامنے ہے وہ پرانے لوگوں کے لئے اسی طرح نیا ہے جس طرح آج کے لوگوں کو پرانا پشاور نیا لگتا ہے۔