یہ وادیاں یہ پربتوں کی شہزادیاں 

 کہتے تھے سردی کب آئے گی۔ سردی میں خوب مزا آئے گا۔ پھر گرمی میں رخساروں کے لال ہونے کے بعد ٹھنڈ نے ڈیرے ڈال دیئے۔ مگر اب کہتے ہیں کہ ُاف بہت سردی ہے سردی کب جائے گی۔ انسان بھی کیا چیز ہے۔کسی حال میں اس کو خوشحالی اور اطمینان نہیں۔پشاور میں ہفتہ بھر سے متواتر ہونے والی بارش نے بہت سے حوصلوں کو شکست دے دی ہے۔ بازار ماند پڑے ہیں کاروبار سنسان ہیں دفاتر میں اگر بالفرض حاضری ہے تو اس میں معاملہ اوپر نیچے ہے۔کوئی بیمار پڑ رہا ہے اور کوئی گھر سے کہتا ہے بیمار ہوں۔پہلے کورونا پھر ایمی کرون اور اب فلورنا کی باز گشت ہے۔اس پر اس قسم کی سردی کا ہونا۔ ہمارے ہا ں بعض شمالی علاقوں درجہ حرارت کا پارہ نو تک نیچے جا گرا ہے۔لگتا ہے پورا ارضِ وطن برف سے ڈھک گیاہے۔اگرکہیں میدانی علاقوں میں برف باری کی کارگذاری نہیں ہے تو وہا ں اس برف جمادینے والی ہوانے شہریوں کو گھروں کی چار دیواری کے اندر محصور و مجبور ہونے پر آمادہ کر دیا ہے۔اس پر بجلی نہیں او رگیس نہیں۔ اب بجلی کے جانے کا اس سردی کے ساتھ کیا واسطہ۔ گرمی ہو ہلکی پھلکی ہو لائٹ چلی جائے۔پھرواپس نہ آئے یا نہ آپائے تو بات سمجھ میں نہ بھی آئے تو کھینچ تان کر ذہن میں لا سکتے ہیں کہ یار گرمی ہے اور استعمال بہت زیادہ ہے۔حالانکہ بجلی ہمارے ہاں ہماری ضرورت سے بہت زیادہ موجودہے۔ اس لئے سردی میں بجلی جانے کا سوال اگر پیدا ہوتا ہے ویسے کانٹے دار جسم کی وجہ سے ذہن و دل میں چھبتا رہتا ہے۔۔یہاں ہر بات کا رونا ہے۔مگر اندازہ ہے کہ جب بیس سال سے بجلی کا کچھ نہ ہوا تو آگے بھی کچھ نہ ہونا ہے۔کہتے ہیں کہ بجلی کے بل ادا نہیں کرتے۔مگر جو اداکرتے ہیں ان کے علاقوں سے بجلی واپس کھینچ کر ان کو سزادیناسمجھ سے باہر ہے۔پشاور سے کئی قافلے اوپری علاقوں کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر افسوس انھوں نے جانے سے پہلے کسی پوچھا تک نہیں مشورہ نہیں کیا کہ ہم جائیں۔کیونکہ گلیات میں سیاحوں کی رش کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔’اوپر نیچے بندے دھنسے ہوئے ہیں۔ شدید برف باری کے ہاتھوں سڑک پر شب گذاری پر مجبور ہیں۔یہ انتہائی غیر ذمہ وارانہ رویہ ہے۔ ذرا خبروں کو دیکھ لیتے تو ان کو یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔مری میں تو مزید سیاحوں کو آنے سے روک دیاگیا ہے۔ٹی وی پربرف کی سفید چادر میں لپٹے ہوئے پہاڑدکانیں سڑکیں گاڑیاں دیکھتے ہوئے اچھی لگتی ہیں۔ مگر پہاڑ دورہی اچھا لگتا ہے۔اب جو بچوں کے ساتھ گئے ہیں۔ وہ یقین ہے کہ پشیمان ہوں گے۔کہتے ہوں گے ہمیں معلوم نہ تھا کہ برف باری میں اس طرح سے شدت آئے گی۔یہ گلوبل وارمنگ کا اثر ہے۔ جس کے قصور کا سارا ملبہ ہمارے ہی سر پہ آن گرتا ہے کہ ہم لوگ ماحول کو آلودہ کرتے ہیں۔جس کے کارن موسم کی یہ ابتری زیادہ ہے۔بلکہ موسم کا حال جاننے والے اب تو طوفانوں کی خبر بھی دے رہے ہیں۔کوئی اگر کسی بڑے کے آکھے میں نہ ہو۔اپنے سے دو دن بڑے کی بات نہ مانے تو اس کو یہی نتائج بھگتنا پڑتے ہیں جو اس وقت مری کے علاقوں میں سیاحوں کے پھنس جانے پر سامنے آئے ہیں۔ بلکہ میں کہوں یہ تو ہر سال ہوتا ہے۔اگرخبروں کے ساتھ واسطہ ہو تو بندہ گھر سے اول تو قدم نہ نکالے۔لیکن جا نکلے تو اپنی احتیاط کیلئے کچھ پلاننگ کر لے۔ یہ تو بس نعرہ لگایا اور ڈاکخانہ چوک میں برف پوش وادی میں پہاڑوں کے زیرِ سایہ جا دھمکے۔پھر وہاں ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ کچھ وہی جانتے ہیں جن کے وہاں دانت بج رہے ہوتے ہیں۔ پشیمان ہوتے ہیں کہ ہمیں برف دیکھنے کا شوق تو بہت تھا مگر برف کے کوڑے اس طرح ہمارے جسم کو جلائیں گے معلوم نہ تھا۔سرکاری دفتروں میں کنٹرول روم بنا کر سرکار اس موسم کی اس ایمرجنسی کی نگرانی کر رہی ہے۔اپنے پیارے گھٹنوں تک برف میں دھنسے ہیں۔ خبروں میں سیاحوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو جان کر افسوس ہوا کہ لطف اٹھانے کیلئے جانے والوں کو کس زحمت اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا‘پشاور تو ہفتہ بھر کی بارش میں اس طرح نکھر کر صاف شفاف ہو گیا ہے کہ دھول اور گرد غبار تو کیا نظر آئے گا خود شہری بھی سڑکوں پر نظر نہیں آتے۔ہاں گاڑیاں موجود ہیں او ردوڑ رہی ہیں۔مگر بائیک سوار اور پیدل چلنے والے اپنے گھر ہی کے گرد گول گول گھوم کر سودا سلف خرید فرما کر واپس لوٹ آتے ہیں۔اب تو خواہش ہو چلی ہے کہ دھوپ دیکھیں آخر یہ کس چیز کا نام ہے یہ کیا ہوتی ہے۔بھول گیادھوپ کی تپش کیا ہے۔ جی چاہتا ہے لان میں بیٹھ کر یا اوپر چھت پر دھوپ کی کرنوں کے سنگ حلوہ کھایا جائے اور کڑک چائے کا کپ ہونٹوں کو گرما دے۔مگر حلوہ تو جب پکے جب چولھے پر برف نہ جمی ہو جب سلینڈر میں بھی اپنی خریدی ہوئی گیس تو ہو۔اگر یہ نہ ہو تو پھر کیا ہو۔