وزیراعظم عمران خان نے اگلے تین ماہ انتہائی اہم قرار دیئے ہیں اور اپنے بیان (چھ جنوری) میں اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ تین ماہ میں مہنگائی کنٹرول کرنے کے ساتھ حکومت کے اچھے کاموں کی تشہیر کی جائے گی۔ تحریک انصاف کے اقتدار کو ساڑھے تین سال سے زائد کا عرصہ ہو گزر چکا ہے اور اگر اِس عرصے میں تحریک اور حکومتی قیادت کو الگ الگ رکھا جاتا تو آج صورتحال قطعی مختلف ہوتی۔ بہرحال اس امر کا پوری سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ گزرے ہوئے تین سال اور باقی ماندہ دو سال سے کم عرصہئ اقتدار کے دوران عام آدمی (ہم عوام) کے مسائل جو کہ روٹی روزگار اور غربت و مہنگائی سے متعلق ہیں کے حل کے لئے جو اقدامات کئے گئے ان کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے اور جو منصوبے پروان چڑھائے گئے ان کے سامنے آنے والے نتائج کو مانیٹرنگ کرنا بھی ضروری ہے‘ ا س میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے مشکل عالمی صورتحال کے باوجود عوام کو ریلیف دینے کیلئے جو اقدامات کئے ہیں وہ اپنی جگہ اہم ہیں۔ اگر غوروخوض (کتھارسس) کے اس عمل میں عوام کے اضطراب کو محسوس کیا جائے تو عوام کا یہی عدم اطمینان حزب اختلاف کی جماعتوں کے لئے حکومت مخالف جذبات کا ابھارنے کا موقع بھی فراہم کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک کے لئے ملک میں مہنگائی و بیروزگاری کی صورتحال لمحہئ فکریہ ہونی چاہئے کیونکہ ایک سال چند ماہ بعد تحریک کو نئے انتخابی مینڈیٹ کے لئے عوام کے پاس جانا ہے۔ دوسری طرف حزب اختلاف کے اتحادیوں نے صف بندی اور منصوبہ بندی کے بعد تیئس مارچ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ اِس سیاسی گرما گرم ماحول میں پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور فیڈرل کونسل کے مشترکہ اجلاس کے فیصلوں کی بنیاد پر آئندہ ماہ ستائیس فروری سے کراچی سے اسلام آباد تک حکومت مخالف لانگ مارچ کا اعلان کیاگیا ہے۔ درحقیقت پیپلزپارٹی نے نہایت ہیبڑی چال چلی ہے۔ اسلام آباد لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کے لئے درکار افرادی قوت کو اسلام آباد میں جمع کیا جائے گا اور اِسی نوعیت کے اقدامات دیگر جماعتیں بھی کریں گی۔ بظاہر پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کے الگ الگ پروگراموں کی بنیاد پر حزب اختلاف کے کمزور ہونے کا عندیہ ملتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ حزب اختلاف کی جماعتیں جانتی ہیں کہ احتساب سے بچنے کی واحد صورت یہی ہے کہ حکومت مخالف احتجاج کے آلاؤ کو بھڑکایا جائے۔ اگر تحریک اپنے لئے پیدا ہونے والی ممکنہ مشکلات (حزب اختلاف کی احتجاجی سیاست) کے اثرات سے بچنا چاہتی ہے تو مضطرب عوام کو غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری جیسے مسائل سے خاطرخواہ ریلیف دے کر سال دوہزار بائیس اور تیئس کو ”ریلیف کا سال“ بنایا جاسکتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ وزیراعظم عمران خان نے آئندہ تین ماہ کو حکومت کے لئے انتہائی اہم قرار دیااور دیکھا جائے تو یہ غلط بھی نہیں اگر مصمم ارادہ ہو تو مشکل مراحل بھی آسان ہو جاتے ہیں اور دو سال کا عرصہ کچھ اتنا کم بھی نہیں جس میں دوررس نتائج دینے والے منصوبے پروان نہ چڑھ سکیں جس طرح حکومت نے مختلف شعبوں میں عوام کو ریلیف دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے اگر ا س میں مزید تیزی لائی گئی تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام موجودہ حکومت کو آنے والے وقتوں کے لئے بھی عوام کی خدمت کا موقع دیں۔