سانحہ مری اور کورونا لہر

قدرتی آفات کا راستہ تو روکا نہیں جا سکتا تاہم خاطر خواہ تیاری اور منصوبہ بندی سے جانی نقصان کو کسی حد تک کم کرنا ممکن ہے، گزشتہ روز مری میں شدید برف باری اور سیاحوں کی بڑی تعداد میں آمد نے جس سانحے کو جنم دیا وہ غمزدہ کردینے والا اور افسوس ناک ہے۔ اس ضمن میں انتظامیہ پر بھی تنقید کی جارہی ہے کہ انہوں نے ایسے حالات کیلئے تیاری کیوں نہیں کی جب کہ محکمہ موسمیات کی طرف سے شدید برفباری کا الرٹ جاری کیا گیا تھا۔ سانحے کے بعد مری جانیوالے راستے بند کرنے کا عمل اگر سانحے سے قبل ایسے وقت پر سر انجام پاتا جب وہاں پرلوگوں کا رش بڑھ گیا تھا اور جس سے مسائل پیدا ہونا فطری امر تھا۔ تاہم ایسے حالات سے بچنے کیلئے سب کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہئے اور عوام کو بھی اس سلسلے میں اپنا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔یعنی موسم کی شدت اور الرٹ کے حوالے سے عوام کو سنجیدہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے اور ایسے معاملات کو کبھی بھی ہلکا نہیں لینا چاہئے جہاں جانی نقصان کااندیشہ ہو۔ مری میں جو ہوا وہ انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ اس میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ تاہم اس واقعے کی ذمہ داری انتظامیہ پر عائد کرنا اس حد تک درست ہے کہ لوگوں کی آمد و رفت کو مانیٹر کرنے کی ضرورت تھی، انتظامیہ کے ناکافی انتظامات بھی اس کی سانحے کی ایک وجہ ہیں۔ دوسری طرف موسم کی شدت لیکن عوام کو رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں الرٹ اور وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔  جبکہ دوسرے ممالک میں یہ رجحان بالکل مختلف ہے وہاں پر گھر سے نکلتے وقت مختصر یا طویل ہر طرح کے سفر سے پہلے موسم کے حوالے سے الرٹ کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور پھر اسی مناسبت سے تیاری کی جاتی ہے۔ حکومتی الرٹ اور ہدایات کو ہم کس حد تک سنجیدہ لیتے ہیں اس کا انداز ملک میں کورونا کی پے درپے لہروں کے دوران ہوگیاتھا۔  اب ایک بار پھر جب کورونا کی نئی قسم نے ملک کے مختلف علاقوں میں پنجے گاڑنے شروع کر دئیے ہیں تو عوام کو اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے الرٹ اور ہدایات پر عمل کرنا چاہئے۔واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کی قسم اومیکرون کے پھیلا ؤکا سب سے زیادہ اثر کراچی میں دیکھا جارہا ہے جہاں کورونا کیسز مثبت آنے کی شرح 15 فیصد سے زائد ہوگئی ہے۔وفاقی وزارت صحت کے حکام کے مطابق کراچی میں گزشتہ روز 5 ہزار 168 ٹیسٹ کیے گئے جس میں 780 افراد وائرس سے متاثر پائے گئے۔دوسری جانب محکمہ صحت سندھ نے بتایا کہ کراچی میں اومیکرون ویرینٹ کی شرح 87 فیصد سے بڑھ چکی ہے۔ایک بیان میں صوبائی صحت حکام نے کہا کہ گزشتہ روز 24 نمونوں کی نیکسٹ جنریشن سیکوینسنگ کی گئی جن میں سے 21 نمونوں میں اومیکرون ویرینٹ کی تشخیص ہوئی۔حکام کے مطابق کراچی میں سب سے زیادہ کورونا کیسز ضلع شرقی میں سامنے آ رہے ہیں جس کے بعد دوسرا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ضلع جنوبی ہے۔اس ضمن میں پارلیمانی سیکریٹری صحت سندھ قاسم سومرو نے کہا کہ اگر کورونا کے کیسز کی شرح یوں ہی بڑھتی رہی تو سخت اقدامات کرنے پڑیں گے، خدشہ ہے آئندہ ہفتے سے ہسپتالوں پر بوجھ پڑنا شروع ہو جائے گا۔دوسری جانب ملک بھر میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے ایک ہزار 572 نئے کیسز سامنے آئے جو 2 اکتوبر کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔اس کے علاوہ یہ مسلسل چوتھا روز ہے کہ جب ملک میں کورونا وائرس کے ایک ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے اور کیسز مثبت آنے کی شرح بھی 3.16 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔