کہتے ہیں کسی کو دوست بناؤ تواس سے پہلے دل میں ایک قبرستان بھی بنا لو۔ جس میں اس دوست کی خامیوں کو دفن کر سکو۔کیونکہ کسی کو آئیڈل ملے یہ ناممکن ہے۔یہاں کوئی بھی آئیڈل نہیں جس میں کوئی خامی نہ ہو۔ یہی دنیا ہے۔کوئی دو میٹھے بول بھی بول دے تو معالج ٹھہرے۔کوئی سڑک پر راستہ بھی دے تواس کو رہنما سمجھیں۔ آج کل پرانے لفظوں کے معانی پرانے رہ گئے۔ہم بہت آگے آ جا چکے ہیں۔جہاں افراتفری اور نفسہ نفسی ہے۔دنیا کی مٹی جس پانی میں گھولی گئی ہے وہ خود غرضی کا پانی ہے۔ رشتوں ناتوں کی وہ خوشبو اب نہیں رہی۔ بس ٹائم پاس معاملہ ہے۔کھیلو کھالو بات چیت کرو ہنسو ہنساؤ۔چند روزہ زندگی میں یہ کرلیں تو بھی بہت ہے۔یہ کم مدت کی قلیل زندگی محبت کرنے کو بھی کم ہے۔ پھر اس میں نفرت کے لئے بھی کہاں وقت ملتا ہے۔مگر جو اس زندگی کا استعمال بغض اور حسد کینہ کے لئے کرتے ہیں وہ غلطی کے اوپر ایک اور غلطی کر تے ہیں۔پبلک کے پاس وقت نہیں رہا کہ اب کسی کے مخلص دوست بھی ہوں۔ سب کو جلدی ہوتی ہے سب کو گھر جانا ہوتا ہے۔جلتے ہوئے گھر کے باہر بھیڑ لگ جاتی ہے۔تماشا کرنے والے بہت جمع ہوں گے۔ مگر آگ بجھانے والے کم ہی ہوں گے۔کوئی تو جلتی ہوئی گاڑی میں بندوں کودیکھ کر دھیان نہیں دیں گے۔ جیب سے موبائل نکال کر مووی بنا کر اس آگ میں دل ٹھنڈا کریں گے۔اب یارانے دوستانے تو فیس بک تک محدود ہو چکے ہیں۔اگر سچ میں دوستی کی مہک نہیں اوریارانوں میں وہ خوشبو نہیں تو فیس بک پر کیوں ہو۔فیس بک تو مشینی چیز ہے۔ اب یار دوست بھی وقت نہ ہونے کے سبب ایک دوسرے سے کم ملتے ہیں۔ فیس بک پر ایک دوسرے ملاقات ہو جاتی ہے۔ پھر وٹس ایپ پر دور دراز کے ممالک سے بھی یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ میسنجر پر میل ملاپ کر لیتے ہیں۔فیس بک پر کوئی یار دوست بنالو تو ضروری نہیں کہ اس کی تصویر کے پردے کے پیچھے وہی ہو۔کسی بت کو ریکوئیسٹ بھیجو تو قبول کر لے گا کیونکہ اس پر تصویر کی جگہ بت کی شکل ہوگی یا اگر مرد کا چہرہ بھی ہو تو ضروری نہیں کہ اس کے پردوں میں نہاں کوئی مرد ہو۔اگر کسی خاتون کاچہرہ لگا کر فیس بک کے میدان میں کود پڑو تو ان گنت ریکوئسٹ کا طومار ملے گا۔کسی کو غیر مرد سمجھ کر دوستی کی درخواست بھیج دو وہ قبول کر لے۔پھر بعد میں بعض بے فکرے اس کو ان باکس میں چِٹ چیٹ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس کے بعد جب وہی بندہ اس کے ہاتھوں عزت سے سبک ہوتا ہے تو اس کو سمجھ آتی ہے۔پھر اس کاڈراپ سین اس اوباش کے بلاک کر دیئے جانے پر انجام ہوتا ہے۔فیس بک ہو یا کوئی اور ایپ بس وقت گذاری کا بہانہ ہے۔ جب حقیقی زندگی میں دوستیوں کا مزا نہیں تو وٹس ایپ پر دوستیاں کیوں پنپیں گی۔بندہ کو حقیقی دنیا میں آئیڈیل کی تلاش رہتی ہے۔مگر جب اس کو آئیڈل نہیں ملتا تو وہ الزام تراشی کرتا ہے۔ یہ نہیں سوچتا کہ کیا وہ خود ابھی تک کسی کا آئیڈل بن سکاہے۔یہ دنیا ہے یہاں کون کس کا ہے۔ہر ایک کو اپنی کسی مجبوری نے ستا رکھا ہے۔ ”نہ جانے کون سی مجبوریوں کا قیدی ہو۔ وہ ساتھ چھوڑ گیا ہے تو بے وفا نہ کہو“۔ آج کل کسی کو بے وفا کہنا درست نہ ہوگا۔کیونکہ وفا او رمحبت کے انداز بدلے گئے ہیں۔کون کس کا آشنا ہے۔ہر ایک فکرِ معاش میں غرق ہے۔طالب علم ہے یا کاروباری بندہ یا پھر عورت یامرد۔ دونوں کو گھر کا کچن چلانے کے لئے نوکری کرنا ہے اور کام کرنا ہے۔”چناں قحط سالی شد اندر دمشق۔کہ یاراں فراموش کردند عشق“۔ جب معاش پریشان ہو تو بندہ کیوں ڈسٹرب نہ ہوگا۔فیض نے کہا تھا ”اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا“۔جب محبت کے سامنے روٹی کی فکر ستاتی ہے تو محبتوں کے اخلاص میں پانی پڑ جاتا ہے۔جیسے کوئی دودھ میں پانی ڈال کر ملاوٹ کر دے۔