براعظم یورپ اور افریقہ میں بھی 2022 میں ایسے واقعات رونما ہوسکتے ہیں جو عالمی طاقتوں کے انداز فکر، فیصلوں اور رویے پر اثرانداز ہوں گے۔یورپ کے لیے یہ ایک نازک سال ہوگا۔ یورپی یونین اور یورپی رہنماؤں کو اندرونی اور بیرونی اختلافات، کورونا وائرس کے جاری سماجی اور اقتصادی اثرات، ماحولیاتی چیلنجز وغیرہ سے نمٹنا ہوگا۔ انہیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ یورپی یونین ایک قابل قدر عالمی طاقت ہوگا یا اپنا اثر و رسوخ چین، امریکہ یا روس کیلئے چھوڑ دے گا۔ آکس معاہدے کے بعد فرانس کے آسٹریلیا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں دراڑ پڑ گئی ہے۔ آسٹریلیا کو دی جانے والی یہ جوہری آبدوزیں بننے اور چالو ہونے میں کئی برس لگیں گے مگر اب فرانس یورپی یونین کیلئے امریکی اثر و رسوخ سے آزاد فیصلہ سازی کا بڑا وکیل بن گیا ہے۔ یونین کے اتحاد کی پہلی آزمائش یوکرین کے مسئلے پر ہوسکتی ہے جہاں روس اپنی مسلح افواج جمع کرچکا اور یوکرین روس کی جنگ کا خطرہ سر پر کھڑا ہے۔ سویڈن، سربیا، آسٹریا، فرانس، ہنگری اور دیگر ممالک میں اس برس انتخابات ہوں گے۔ فرانس میں صدر میکرون کی پوزیشن کو نسل پرست اور اسلام مخالف دائیں بازو کے انتہاپسند میرین لی پین، ایریک زیمور اور ریپبلکن قدامت پسند والیری پیکریسی کی جانب سے مضبوط چیلنج کا سامنا ہے۔ بائیں بازو کے انتشار کے پیش نظر یہ انتخابات فرانس میں ایک کٹر بنیاد پرست حکومت بننے کا باعث بن سکتے ہیں۔ فرانس نے جنوری میں یورپی یونین کی صدارت سنبھال لی ہے اور میکرون مشترکہ دفاع اور سلامتی کی پالیسی کے سلسلے میں یورپی یونین کی تذویراتی خود مختاری کیلئے کوشاں رہیں گے۔ پولینڈ، جمہوریہ چیک، سلووینیا اور یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک میں بھی رجعت پسند انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں مضبوط ہو رہی ہیں اور تفرقہ انگیز ایجنڈے آگے بڑھا رہی ہیں۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربن، جو ہنگری کو”آزادی بیزار ریاست“ کہتا ہے اور قانون کی حکمرانی، جمہوریت اور آزادی اظہار کے مسائل پر یورپی یونین کا مذاق اُڑاتا ہے اور ملک میں جمہوری ادارے کمزور اور اپنی طاقت بڑھا رہا ہے، کو پہلی بار متحدہ اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔جرمنی میں اولف شولز کی سربراہی میں قائم سہ فریقی حکومت کو انجیلا مرکل کے طویل دور حکومت کے بعد کارکردگی کا معیار بہتر کرنا ہوگا اور حکومت میں شامل ماحول پسند گرین پارٹی کی وجہ سے اسے ماحولیات کے حوالے سے یونین کے اتحادیوں سے اختلافات کے علی الرغم کام کرنا ہوگا۔ مزید برآں مفاہمتی وعدوں کے باوجود جرمنی کی نئی قیادت کے یورپی کمیشن اور فرانس اور دیگر جنوبی یورپی ممالک کے ساتھ بجٹ پالیسی اور قرضوں پر اختلافات برقرار رہیں گے۔ یونین کودرپیش دیگر مسائل میں یورپی یونین کی کسی انسان دوست ترک وطن پالیسی کی عدم موجودگی، بیلاروس کی جانب سے نقل مکانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا اور بوسنیا ہرزیگوینا اور بلقان میں علیحدگی پسندوں کی مضبوطی کی وجہ سے پیدا مشکلات شامل ہیں۔ یورپی یونین چین کے سربراہی اجلاس کی تیاری کررہا ہے مگر اس کے رکن ممالک کاروبار اور انسانی حقوق میں کسی توازن پر متفق نہیں۔ برطانیہ میں یورپی یونین سے اخراج پر مایوسی اور پچھتاوا بڑھ رہا ہے۔ افغانستان میں یک طرفہ فیصلے کے بعد امریکہ کے ساتھ یونین کے تعلقات اب ماضی جیسے نہیں رہے اور یوکرین مسئلے پر اس کی جانب سے روس کے خلاف متوقع کمزوری دکھانے کے بعد یہ مزید مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔ افغانستان میں ناکامی کے بعد نیٹو کی ساکھ خراب ہوئی ہے اور اس دوران اس کے نئے سیکرٹری جنرل کے لیے برطانیہ کی سابق وزیر اعظم تھریسا مے کا نام لیا جارہا ہے لیکن فرانس اس پر راضی نہیں ہوگا۔ افریقہ بھی اس سال خبروں میں رہے گا۔ ایتھوپیا میں سرکاری فوج اور تیگرے پیپلز لبریشن فرنٹ کے مابین لڑائی کی وجہ سے اندازہ ہے کہ چار سے سات لاکھ لوگ مرچکے، بیس لاکھ شہری گھروں سے بے دخل ہوگئے اور فریقین نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ قحط، تشدد اور اقلیتی گروہوں کی نسلی تطہیر کے درمیان امریکہ اور یورپی یونین ایتھوپیا کی حکومت اور باغی فرنٹ کے مابین ایک ایسی جنگ ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں جسے ہر فریق ختم بھی نہیں کرنا چاہتا مگر خود جیتنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ پڑوسی ملک اریٹیریا کی بڑھتی ہوئی مداخلت کی وجہ سے جنگ اگر جاری رہتی ہے تو ایتھوپیا کے یوگوسلاویہ جیسی نسلی ریاستوں میں تقسیم ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ رواں برس شاید وہاں سے مزید اندوہناک خبریں سامنے آئیں گی۔ 2022 میں افریقہ میں صرف ایتھوپیا ہی انتشار کا شکار دکھائی نہیں دیتا بلکہ ایک امریکی تھنک ٹینک فنڈ فار پیس کے مطابق دنیا کے کمزورترین پندرہ ممالک میں سے گیارہ سب صحارا افریقہ میں واقع ہیں۔ جن میں جنوبی سوڈان اپنے قیام کے بعد اس دہائی کے دوران جنگ زدہ ہے۔ دوسری طرف مالی میں دو اور چاڈ اور گنی میں بغاوتوں کے بعد حالات بدستور خراب ہیں۔ سوڈان میں جمہوریت بحال کرنے کیلئے شدید مظاہروں کے بعد وزیراعظم نے استعفی دے دیا ہے اور پارٹیوں اور فوج کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کی پارٹیاں مضبوط ہو گئی ہیں۔ پہلے میکسیکو میں، پھر بولیویا، پیرو، ہونڈوراس اور چلی میں حکومت بنا لی ہے اور شاید جلد ہی کولمبیا اور برازیل میں بھی ایسا ہوگا۔ ابھی ایل سلواڈور، یوراگوئے اور ایکواڈور تک یہ رجحان نہیں پھیلا مگر لاطینی امریکہ پہلے کبھی اتنا بائیں بازو اور امریکہ مخالف حکومتوں کے زیر اثر نہیں رہا۔ اس سال خطے کی چھ بڑی معیشتوں میں بائیں بازو اور مرکز کے بائیں بازو کے لیڈروں کے اقتدار میں آنے کی توقع ہے۔ ان کی وجہ سے چین خوش ہوگا مگر امریکہ کے لیے وینزویلا، نکاراگوا اور کیوبا میں بائیں بازو کی حکومتوں کو الگ تھلگ کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ تاہم ان نئی حکومتوں کیلئے اپنا ایجنڈا نافذ کرنا بھی مشکل ہوگا کیوں کہ انہیں بڑے قرضوں، کم آمدنی، قرضوں کے حصول میں مشکلات اور اندرونی مخالفت کا سامنا ہے۔اس برس اکتوبر کے قومی انتخابات میں برازیل میں دائیں بازو کے صدر اور سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دوست جیر بولسونارو کی متوقع شکست بحران جنم دیتی نظر آرہی ہے۔ بولسونارو کورونا سے مہلک غفلت جس کی وجہ سے پانچ لاکھ برازیلی مرچکے، موسمیاتی تبدیلی سے انکار اور ایمیزون کے جنگلات کی تباہی کیلئے سخت تنقید کی زد میں ہیں۔