توجہ طلب امور

مری میں پیش آنے والے افسوس ناک واقعات کے حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں کہ یہاں پربد انتظامی کے باعث حالات بد سے بد تر ہوتے گئے۔ ورنہ اس سے زیادہ رش تو صوبہ خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات پر ہوتی ہے اور اس وقت بھی جب مری میں یہ سانحہ پیش آیا کچھ ہی فاصلے پر صوبہ خبیر پختونخواکے سیاحتی علاقے میں نہ تو ہوٹل والوں نے ظالمانہ رویہ اپنایا اور نہ ہی وہاں پر سیاحوں کو کوئی دوسری تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔مری واقعے کے حوالے سے کچھ تجاویز منظر عام پر آئی بھی ہیں۔وفاقی وزیر توانائی  حماد اظہار نے مری میں ہوٹلوں کے کرایوں میں بے تحاشہ اضافے اور رش کو کنٹرول کرنے کیلئے حکومت کو اہم تجویز پیش کی ہے۔ حماد اظہر کا کہنا ہے کہ برفباری کے سیزن میں ہوٹلوں میں ایڈوانس بکنگ پر عملدرآمد کرایا جائے اس سے لوگوں کارش کم ہوگا۔ان کا مزید کہنا ہے کہ مری 1890کے ڈھانچے پر چل رہا ہے، مری کوضلع بنا کر شہر کے ریاستی ڈھانچے کو بہتر بنایا جائے گا۔ دوسری جانب مری کا نیا نام ضلع کوہسار رکھنے کی تجویز سامنے آ گئی، سیاحتی علاقے کیلئے کوہسار ڈویلپمنٹ اتھارٹی بھی قائم کرنے کی باضابطہ تجویز پیش کر دی گئی۔خبروں کے مطابق وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے ضلع کے قیام اور کوہسار ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کیلئے ہدایات جاری کر دیں۔ضلع کوہسار سیاحتی لحاظ سے پاکستان کا پہلا سیاحتی ضلع ہوگا،ضلع کوہسار کی حد بندی کے لئے بور ڈ آف ریونیو سے سفارشات طلب کر لی گئی ہیں، جبکہ کون کون سے علاقے نئے ضلع میں ہوں گے اس حوالے سے چیف سیکرٹری اور ایس ایم بی آر سے سفارشات طلب کی گئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تجویز کردہ ضلع کوہسار کے علاقے کی حدود خیبر پختونخواہ تک ہوں گی، راولپنڈی کے کچھ علاقے بھی اس ضلع میں شامل ہوسکتے ہیں۔وزیراعلی پنجاب نے اس سلسلہ میں ارکان اسمبلی سے بھی مشاورت کی ہدایت کردی۔ مجوزہ کوہسار ڈویلپمنٹ اتھارٹی مری کے سیاحتی مقام پر تعمیر و ترقی کی ذمہ دار ہوگی۔جبکہ ساتھ ساتھ ریسکیو اور ریلیف آپریشن کی بھی ذمہ دار ہوگی جبکہ سیاحتی ضلع کو مشینری خریدنے کیلئے خصوصی فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔یہ تو کچھ ملکی واقعات کا تذکرہ ہوا، دوسری طرف بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کی منظم کوششیں جاری ہیں اور اس حوالے سے اب آوازیں بھی اٹھنے لگی ہیں۔انڈیا کے مشہور نغمہ نگار اور شاعر جاوید اختر نے وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے صدر سے ملاقات کے دوران اس غیر واضع خطرے کا تو ذکر کیا جو انھیں چند روز قبل خود لاحق ہوا تھا لیکن انھوں نے اس وقت ایک لفظ بھی نہیں کہا جب انڈیا کے 20 کروڑ مسلمانوں کو ختم کرنے کی کھلے عام دھمکی دی جا رہی تھی۔جاوید اختر نے اپنے ایک ٹویٹ میں وزیرِ اعظم کی صدر سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے صدر سے ملاقات کی اور اس غیر واضع اور اکثر کے مطابق ان فرضی خطرات کے بارے میں بات کی جو انھیں اس وقت لاحق تھے جب وہ بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے جو ایل ایم جیز پکڑے محافظوں کے گھیرے میں تھی، لیکن انھوں نے اس وقت ایک لفظ بھی نہیں کہا جب 20 کروڑ مسلمانوں کو کھلے عام نسل کشی کی دھمکی دی جا رہی تھی۔انھوں نے وزیرِ اعظم نریندر مودی سے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہے؟یاد رہے کہ حال ہی میں جب وزیرِ اعظم مودی پنجاب کے دورے پر تھے تو ان کے قافلے کو سڑک پر موجود احتجاجی مظاہرین کی وجہ سے ایک فلائی اوور پر رکنا پڑا تھا۔مرکزی وزارت داخلہ نے اسے سکیورٹی میں بڑی کوتاہی قرار دیا تھا۔ تاہم پنجاب کے وزیر اعلی چرنجیت سنگھ چنی نے اس کی تردید کی تھی۔ اس معاملے کو سپریم کورٹ میں بھی لے جایا گیا ہے۔اب سپریم کورٹ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیٹی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ اس سے قبل  گزشتہ ماہ دسمبر میں ہری دوار میں منعقدہ دھرم سنسد میں مسلمانوں کے بارے میں دھمکی آمیز تقاریر کی گئی تھیں۔ ان پر پہلے تو اتراکھنڈ پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی، لیکن جب سوشل میڈیا پر یہ تقاریر سامنے آئیں اور لوگوں میں غم و غصہ پیدا ہوا تو بعد میں کچھ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔اس تقریب کے ایک منتظم پرابودھا آنند گیری کو یہ کہتے ہوئے صاف دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ میانمار کی طرح، ہماری پولیس، ہمارے سیاستدانوں، ہماری فوج اور ہر ہندو کو ہتھیار اٹھانے چاہیئں اورکلین کرنا چاہیے۔ کوئی اور آپشن نہیں بچا ہے۔اسی تقریب کی ایک اور ویڈیو میں ایک خاتون مذہبی رہنما کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے اگر آپ سب کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو انھیں مار دیں۔۔۔ ہمیں 100 فوجیوں کی ضرورت ہے۔ہندوتوا شدت پسندوں کے ایک اجتماع میں بھارت میں اقلیتوں خصوصا 20 کروڑ مسلمانوں کے قتلِ عام کے لیے دی جانے والی کال پر مودی سرکار کی خاموشی اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ بی جے پی حکومت اس کال کی حامی ہے۔ وقت کی نزاکت کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری اس کا نوٹس لے اور کاروائی کرے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مودی سرکار کے شدت پسندانہ نظریے کے سائے میں ہندوتوا جتھے پوری ڈھٹائی اور آزادی سے بھارت میں تمام مذہبی اقلیتوں پر حملہ آور ہیں۔ مودی سرکار کے یہ شدت پسندانہ عزائم  علاقائی امن کیلئے  حقیقی خطرہ ہیں۔ایسے میں عالمی برداری کا رویہ ناقابل فہم ہے کہ بھارت میں کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی اور ان کے قتل عام کے منصوبے بن رہے ہیں اور انسانی حقوق کے محافظ عالمی ادارے اس پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ مودی سرکار پر عالمی برداری باقاعدہ طور پر مسلمانوں کی نسل کشی کے جرم میں کاروائی کرے۔ورنہ وہ وقت دور نہیں جب سربیا اور برما کی طرح بھار ت میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوجائے۔