ڈیجیٹل اثاث

سترہویں صدی میں جب بینکوں نے کرنسی نوٹوں کا اجرا کیا تو لوگوں نے ایک عرصے تک اسے قبول نہ کیا اور کاغذی نوٹ فوری طور سکوں کی جگہ نہ لے سکے۔ سونا یا چاندی وغیرہ کی مقدار متعین کرکے جاری کئے جانے والے یہ کرنسی نوٹ قریب بیسویں صدی تک چلتے رہے۔ اب کرنسی نوٹوں کی حقیقی قیمت موجود نہیں ہوتی۔ دنیا میں پائی جانے والی بیشتر کرنسی فیئٹ (fiat) کہلاتی ہے اور یہ کرنسی صرف عوامی اعتماد کی بنیاد پر اپنی قیمت رکھتی ہے۔ گویا نوٹ کی حقیقی قدر صرف وہ اعتماد ہے جو عوام اداروں پر کرتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں کرنسی نوٹ کی جگہ کرپٹو کرنسی متعارف ہوئی جو کرپٹولوجی اور کرپٹو گرافیکل تکنیک سے تیار کی جاتی ہے۔ بٹ کوائن اس قبیل کی سب سے پہلی کرنسی ہے جو سال دوہزارنو میں متعارف ہوئی۔ اس کے بعد ہزار سے اوپر مزید ایسی کرنسیاں متعارف کروائی گئیں جن میں ایتھیریم‘ رئیپل‘ زی کیش‘ لائٹ کوائن وغیرہ شامل ہیں۔ درحقیقت کرپٹو کرنسیاں اثاث کی ڈجیٹل شکلیں ہیں۔ واضح رہے کہ ڈجیٹل اثاث میں اور روایتی اثاث کی الیکٹرونک لین دین میں فرق ہے۔ ڈجیٹل اثاث ایسی کرنسی ہے جس کے تین مقاصد ہیں‘ پہلا یہ کہ اسے لین دین کے ایک ذریعے کے طور پر مکمل تحفظ کے ساتھ استعمال کیا جاسکے۔ دوسرا یہ کہ جعل سازی ممکن نہ ہو اور تیسرا یہ کہ ٹرانسفر کی واقعتاً تصدیق کی جاسکے۔ یہ کرنسی کرپٹو گرافیکل تکنیک سے بنائی جاتی ہے۔ ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں پہنچنے کے لئے خاص قسم کے کوڈز کو حل کرنا ناگزیر ہوتا ہے اور یہ کام صرف اصلی کرپٹو کرنسی سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ کسی جعلی طریقے سے ممکن نہیں ہوسکتا لیکن ایسے کئی دیگر طریقے موجود ہیں جن کے ذریعے ’ڈیجیٹل کرنسی‘ میں دلچسپی رکھنے والوں کے ساتھ دھوکہ (فراڈ) کیا جاتا ہے۔نئے عیسوی سال دوہزار بائیس کے آغاز پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کرپٹو کرنسی کی آڑ میں پاکستانی شہریوں کے ساتھ کئے گئے اربوں روپے کے فراڈ سے پردہ اٹھایا۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے مطابق پاکستان میں پونزی سکیمز کی طرز پر بہت سے آن لائن سرمایہ کاری کے فراڈ جاری ہیں جن میں سرمایہ کاروں سے زیادہ کلائنٹس لانے پر ان کی سرمایہ کاری پر زیادہ منافع کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ یہ سکیمز نئے کلائنٹس کی قیمت پر پرانے کلائنٹس کو فائدہ پہنچاتی ہیں اور بالآخر اربوں روپے کا ٹھیک ٹھاک سرمایہ بنانے کے بعد غائب ہوجاتی ہیں۔ اِس سلسلے میں ’ایف آئی اے‘ نے تحقیقات کا آغاز بیس دسمبر کو اُن شکایات ملنے کے بعد شروع کیا تھا جو پورے پاکستان سے سوشل میڈیا کے ذریعے ارسال کی گئیں تھیں اور کم از کم گیارہ موبائل فون ایپلی کیشنز کے بارے میں انکشاف ہوا کہ ان ایپلی کیشنز نے پاکستانی عوام کے ساتھ اربوں روپے کا فراڈ کر کے ایک عرصے سے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ مذکورہ ایپلیکیشنز کا طریقہ کار لوگوں کو بائنانس کرپٹو ایکسچینج (بائنانس ہولڈنگز لمیٹڈ) میں رجسٹریشن کے لئے آمادہ کرنا تھا جس کا مقصد ورچوئل کرنسیوں جیسے بٹ کوائن‘ ایتھریم‘ ڈاج کوائن وغیرہ میں تجارت کرنا تھا۔ جس کے بعد اگلا مرحلہ بائنانس والیٹ سے اس مخصوص ایپلیکیشنز کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرنا تھا۔ یہاں یہ پہلو مدِ نظر رہے کہ بائنانس سب سے بڑا غیر منظم ورچوئل کرنسی ایکسچینج ہے جہاں پاکستانیوں نے لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق اسی وقت گروپ کے تمام ممبران کو ٹیلیگرام ایپلی کیشن پر گروپس میں شامل کیا گیا جہاں ایپلی کیشن کے گمنام مالک اور ٹیلی گرام گروپس کے ایڈمنز کی جانب سے بٹ کوائن کے عروج اور زوال کے بارے میں نام نہاد ماہر بیٹنگ سگنلز دیئے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ جب کافی کیپٹل بیس قائم ہو گیا تو یہ ایپلیکیشنز کریش ہوگئیں اور اس طرح ریفرل بونس عمل کے ذریعے لوگوں کے لاکھوں ڈالر لوٹے گئے۔ ایف آئی اے ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس طرح کی ہر ایپلی کیشن کے اوسطاً پانچ ہزار صارفین تھے جبکہ ایچ ایف سی کے ساتھ مبینہ طور پر زیادہ سے زیادہ تیس ہزار صارفین تھے۔ ایف آئی اے کے مطابق سرمایہ کاری کی مبینہ حد فی کس سو سے اَسی ہزار ڈالر تک تھی جس کا تخمینہ اوسطاً دو ہزار ڈالر فی کس ہے اس طرح یہ اندازاً دس کروڑ ڈالر کا فراڈ ہوا۔  مذکورہ انکشافات سامنے آنے پر ایف آئی اے سائبر کرائم نے بائنانس پاکستان (کرپٹو کرنسی ایکسچینج) کو اپنے مؤقف کی وضاحت کے لئے پیش ہونے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی اس کی وضاحت کے لئے ایک سوالنامہ بائنانس ہیڈ کوارٹر کیمن آئی لینڈز اور بائنانس امریکہ کو بھی بھیجا گیا۔ اس ضمن میں ایف آئی اے کی جانب سے اب تک مختلف اقدامات اٹھائے گئے ہیں‘ جن کے تحت ان ایپلیکیشنز سے منسلک تمام پاکستانی بینک اکاؤنٹس کو ڈیبٹ بلاک کردیا گیا ہے اور فراڈ ایپلیکیشنز کے گروپس کے ایڈمنز کی معلومات کے حصول کے لیے ٹیلیگرام سے رابطہ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ان ایپلیکیشنز کی تشہیر کرنے والے سوشل میڈیا انفلوئینسرز کو ایپلیکیشنز کے ساتھ ان کے رابطے کی وضاحت کے لئے قانونی نوٹس بھیجے جائیں گے۔ تحقیقات میں کم از کم چھبیس مشتبہ بلاک چین والیٹ ایڈریسز (بائنانس والیٹ ایڈریس) کی نشاندہی ہوئی جہاں دھوکہ دہی سے رقم منتقل کی گئی ہوگی‘ اس ضمن میں بائنانس ہولڈنگز لمیٹڈ کو خط لکھا گیا ہے تاکہ ان بلاک چین والیٹ اکاؤنٹس کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ ان کو ڈیبٹ بلاک کیا جائے۔ ساتھ ہی بائنانس سے کہا گیا ہے کہ وہ شرائط، سرکاری معاون دستاویزات اور بائنانس کے ساتھ ان ایپلیکشنز کے انضمام کا طریقہ کار فراہم کرے۔