دھند اور کہر میں لپٹی ہوئی شام

کچھ ہی دن پہلے ایسا ہوا۔ جس کا حال اندرون شہر تو کسی نے نہ دیکھا۔ کیونکہ شہر میں اونچی عمارات اور آبادیاں ہیں۔ جوسلسلہ وار پتا دیتی ہیں کہ حبس کو اگر ڈھونڈناہو تووہ یہیں ملے گی۔ شہر سے باہرعلاقوں میں رات دس بجے سے وہ دُھند شروع ہوئی جیسے کہیں آگ جل رہی ہو اور لال زبانیں ہلاتے شعلوں سے دھوؤں کے مرغولے اٹھ اٹھ کر راہگیروں کی گاڑیوں کے آگے بیٹھ بیٹھ جاتے تھے۔اتنا اندھیرا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس روشن تھیں۔مگر پھر بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑناتھا کہ کہیں کسی سے ٹکر نہ ہو جائے۔ہمارا قافلہ بھی چاند گاڑی میں گذرا۔بلکہ اس وقت اس دھند کا نظارا کرنا اپنی جگہ ایک تماشا تھا۔ پچھلی سواری نے کہا توبہ توبہ کیسی دھند ہے۔بچی سے کہنے لگی دھند یہ ہوتی ہے جو بادل بن کر پھر نئے سرے سے برستی ہے۔اب مری میں کیا ہوا۔اسی طرح کی دھند وہاں بھی ہوگی۔ وہ اپنا فلسفہ جھاڑ رہی تھی۔میں حیرانی کے سمندر میں غوطہ کھا رہا تھا۔ اندھیرے میں آنکھیں ضرورت سے زیادہ کھول کر راستہ تلاش کرنے لگا کہ کہیں نیچے گر نہ جائیں اس وقت کون گھپ اندھیرے میں ہماری مددکو پہنچے گا۔پھر اس وقت یہ سوچ دماغ کے پرزوں کو چھیڑنے لگی کہ اب اگر یہ حال ہے توکل صبح سردی کا عالم کیا ہوا۔ کل بادل ہوں گے اور اس دھند میں کچھ نظر نہیں آئے گا۔ ایک اور ٹھنڈی صبح او رپھر بارش یا پھر سلسلہ وار بارش ہماری منتظر ہوگی۔ مگر جب شادی کی تقریب سے واپسی ہوئی تورات بارہ بجے کے عالم میں وہ سب کچھ نہ تھا جو دو گھنٹے پہلے تھا۔ اس پرحیرانی نہیں حیرانیاں ہاتھ لگیں۔کیونکہ جاتے ہوئے ٹھنڈک میں دانت بج رہے تھے۔مگر چاہئے تھا کہ اب زیادہ سردی کا عالم ہوتا۔ مگر سڑک پر اب کے نہ وہ دھند تھی اور نہ ہی وہ پہلے سی سردی تھی۔ جی چاہا کہ اس ہوا میں کوٹی کے بٹن کھول دوں اور ہوا کا مزا لوں۔ مگرسوچا نمونیہ کے بہت کیس سامنے آ رہے ہیں جو کورونا ایمی کرون اور فلورونا میں بدل جاتے ہیں۔جوانی کا کیا ہے ہم بوڑھوں کو بھی کبھی جوش دلا دیتی ہے۔میں نے اس وقت اپنی سی موسمی پیش گوئی کی اور سوچااب کل صبح نہ دھند ہوگی اور نہ ہی بادل ہونگے۔دھوپ ہوگی کرارے دار دھوپ۔ پھر دوسرے دن صبح جیسا سوچا تھاویسا ہوا۔ خیال آیاکہ ہمیں محکمہ موسمیات میں ہونا چاہئے۔ کیونکہ وہ تو نیٹ پر ہفتہ بھر کا موسم کا شیڈول جاری کر دیتے ہیں۔ اگر بارش کا کہہ دیں تو نہ صرف بارش نہیں ہوتی بلکہ بادل ہوں تو چھٹ جاتے ہیں۔اگر بول دیں کہ دھوپ ہوگی تو بارش ہو جاتی ہے۔ اس سے اچھا تو ہمارا اپنا ذاتی سسٹم ہے جو شہر میں گھوم پھر کر اپ ڈیٹ ہوجاتا ہے۔مسئلہ یہ نہیں بات کچھ اور ہے۔یہ دو گھنٹوں ہی میں موسم میں اچانک تبدیلی۔پھر وہی ٹھنڈک والی حالت۔ کبھی سردی اور کبھی گرمی اور کبھی گرمی کے بعد فوراًسردی۔ یہ کسی اور بات کا پتا دیتی ہیں جو خطرناک ہے۔یہ کہ پورے زمین پر دنیا بھر میں موسم کی بوالعجبیاں زوروں پر ہیں۔ جو لوگ گھروں میں خود کو قید کئے ہوئے ہیں اورباہر کم ہی نکلتے ہیں۔ وہ ان تبدیلیوں کا براہِ راست مشاہدہ کرنے سے قاصر ہیں۔مگر ہم جیسے روڈ ماسٹر کو اگر سب کچھ نہیں تو موسم کی نابکاری کچھ سہی معلوم ہو جاتی ہے۔پھراپنا تو خبروں نیٹ اور اخبار سے بھی واسطہ ہے۔دنیابھر کی اطلاعات ہاتھ میں تھامے ہوئے موبائل کی ننھی منی کھڑکی سے اندر آتی رہتی ہیں۔ پچھلی سواری جب اس دھند پر تبصرہ فرما رہی تھیں اس وقت میں خاموشی سے سب کچھ سن رہاتھا۔ اس وقت میرا بیچ میں بولنادرست نہ تھا کیونکہ میں گھوڑے کی باگیں تھامے یوں تھا جیسے ہم لوگ بکری پر سوار ہوں اور اس کو کانوں سے پکڑ رکھاہو۔میں نے گھر جا کر تشویش ناک لہجے میں کہا اری باؤلی یہ دھند نہیں تھی۔ یہ تو سموگ تھا جس کو آ پ نے دھند سمجھا اور میں نے جلتی آگ کے الاؤ میں سے چھن کر آنے والا سموک جانا۔اس دھند میں تو سارے دن کا شہر کی گاڑیوں میں سے نکلنے والادھواں اور گرد وغبار شامل ہے۔