قرض مرض ہے اور اِس بیماری سے متاثرہ ’قومی معیشت‘ کا علاج جس ٹوٹکے (مزید قرض) میں تلاش کیا جاتا ہے اُس کی وجہ سے مرض کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اُمید افزا ہے کہ سٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے کہا ہے کہ ”ملک کی معیشت میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے باہر نکلنے کی صلاحیت ہے اور دباؤ کی وجہ عالمی سطح پر مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔ دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کی جانب سے جیسے ہی زری پالیسی سخت کی گئی تو دباؤ میں کمی آنی چاہئے اور عالمی سطح پر طلب میں کمی کا امکان ہے۔ ہمیں جس بات کو یقینی بنانی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس مقابلے کی صلاحیت ہونی ہے اور مجھے یقین ہے ہم کریں گے۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ طلب میں تیزی سے ہونے والی بحالی ہے کیونکہ معیشتیں کورونا وبا کے باعث پیدا ہونے والے معاشی بحران سے باہر آرہی ہیں۔ مرکزی بینکوں نے سختی شروع کردی ہے اور یہ عالمی طلب میں بڑھوتری میں پیش رفت کررہے ہیں‘ جس کے بدلے عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں تنزلی ہونے جارہی ہے۔ چند مہینوں کے دوران ہونے والا دو تہائی تجارتی خسارہ دنیا بھر میں قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہوا ہے۔ پاکستان درآمدی ادائیگیوں کا ایک تہائی تیل کی ادائیگیوں پر ہے اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ برینٹ کی قیمت دوہزاراکیس میں پچاس فیصد بڑھی اور دوہزاربائیس میں بھی اس کی قیمت بڑھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کا لچکدار ایکسچینج ریٹ سسٹم ادارہ جاتی اصلاحات میں سے ایک قدم ہے‘ اس کی وجہ سے ہمیں توازن ادائیگیوں میں مدد ملے گی۔ سٹیٹ بینک نے ستمبر سے اب تک 275بیسز پوائنٹ بڑھائے اور شرح سود 9اعشاریہ 75فیصد پر ہے تاکہ روپے کی بے قدری‘ افراط زر اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ روکا جا سکے۔“ قبل ازیں مرکزی بینک نے اشارہ دیا تھا کہ وہ ممکنہ طور پر شرح سود میں کمی روک دے گا جبکہ روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران تقریباً دس فیصد گر گئی۔ پاکستان میں دسمبر میں کنزیومر پرائس انڈیکس ایک سال کے قبل کے مقابلے میں بارہ اعشاریہ اٹھائیس فیصد بڑھا جو سٹیٹ بینک کی رواں مالی سال کیلئے دیئے گئے نو سے گیارہ فیصد کے تخمینے سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی قومی مالی حالت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اُمید کی جا سکتی ہے کہ جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) اور آمدن و اخراجات میں عدم توازن (فسکل ڈیفسیڈ) پر قابو پانے کیلئے قرضوں کے علاوہ بھی موجود امکانات (حل) آزمائے جائیں گے۔سخت معاشی حالات میں مزید مہنگائی بڑھنے کے امکانات ہیں۔ رواں ہفتے سینٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں ترمیمی فنانس بل (منی بجٹ) پر سفارشات کو مرتب کرنے کا کام مکمل کیا گیا‘ جنہیں حتمی شکل دینے کے بعد ایوان بالا (سینٹ) میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔