کرکٹ کے چار روایتی حریف ممالک میں پاکستان بمقابلہ بھارت اور آسٹریلیا بمقابلہ برطانیہ پر مبنی چار ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز کو تصور سے حقیقت کا روپ دھارنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کرکٹ کے عالمی منتظم ادارے آئی سی سی کے آئندہ اجلاس میں چار ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز کی تجویز پیش کریں گے‘ جس کی منظوری کے بعد پاکستان‘ بھارت‘ آسٹریلیا اور برطانیہ کی ٹیموں کے درمیان مقابلے سالانہ بنیاد پر کھیلے جائیں گے۔ رمیز راجہ جب سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے ہیں ان کے اقدامات اور بیانات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ پاکستان کی کرکٹ کو بین الاقوامی سطح پر بلند مقام پر دیکھنے کے لئے غیر معمولی طور پر سنجیدہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نہ صرف پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے اصلاحات کی گئی ہیں بلکہ وہ کرکٹ کے فروغ اور شائقین کرکٹ کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے مجوزہ چار ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز کا تصور بھی پیش کر چکے ہیں۔ مذکورہ سالانہ سیریز یقینا دنیائے کرکٹ میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے مقابلوں کا ریکارڈ قائم کرے گی کیونکہ روایتی حریف ہونے کے علاؤہ مذکورہ چاروں ممالک کے کھلاڑی معیاری کرکٹ کھیلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے جبکہ چار بہترین ٹیموں کے درمیان مقابلوں سے کھلاڑیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔چار ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز عملاً ممکن (قابل عمل) بنانے کیلئے رمیر راجا ایک کمپنی رجسٹر کرنے کی بات کرتے ہیں جو آئی سی سی کے ماتحت کام کرے جس کا اپنا چیف ایگزیکٹیو ہو اور اس سیریز کی آمدنی تمام رکن ملکوں میں تقسیم ہو۔ اس حوالے سے آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) جیف الارڈائس نے کہا ہے کہ آئی سی سی کی رمیز راجہ سے (اس حوالے سے) کسی بھی آئیڈیا پر فی الحال کوئی خط و کتابت یا بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ جب تک ’آئی سی سی‘ کو اس حوالے سے تفصیلات تحریراً موصول نہیں ہو جاتیں کہ رمیز راجہ اس معاملے پر کیا سوچ رہے ہیں‘ تب تک تبصرہ کرنا مشکل ہے۔ رمیز راجہ یعنی پاکستان کے نکتہئ نظر سے مذکورہ چار ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں سب سے زیادہ پرکشش بھارت کے ساتھ مقابلے ہوں گے۔ ’ایشیز‘ نامی کرکٹ ٹورنامنٹ کی دو روایتی ٹیموں کے علاوہ روایتی حریف پاکستان اور بھارت کے ہونے سے یہ سیریز شائقین کی غیر معمولی دلچسپی حاصل کرے گی۔ رمیز راجہ نے اس سیریز کا خیال چند روز قبل اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں پیش کیا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کی دو طرفہ سیریز کے مقابلے میں تین چار ملکوں کے درمیان ہونے والی سیریز زیادہ دلچسپ ثابت ہوسکتی ہے۔ ایسی کوئی بھی تجویز جس میں پاکستان بھارت کرکٹ کا ذکر ہو‘ ہمیشہ سے شائقین کی توجہ کا مرکز رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے کرکٹ شائقین بھارت کے ساتھ مقابلوں کو دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کی تازہ ترین مثال حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ ہے جسے دنیا بھر میں لوگوں کی ریکارڈ تعداد نے دیکھا۔ بدقسمتی سے دونوں ملکوں کے کشیدہ تعلقات دو طرفہ کرکٹ کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور شائقین صرف ’آئی سی سی‘ کے ایونٹس میں ان دونوں ٹیموں کو مد مقابل ہوتا دیکھنے پر مجبور ہیں۔ رمیز راجہ کی چار ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز کی تجویز میں سب سے حیران کن پہلو بھی یہی ہے کہ یہ سیریز کس طرح ممکن ہو گی؟ رمیز راجہ پاکستان بمقابلہ بھارت کرکٹ مقابلوں سے جڑی سیاست کے بارے میں بخوبی جانتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی سطح پر رابطہ اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اتنا آسان نہیں ہوتا کہ یہ فوری طور پر تصور سے حقیقت کا روپ دھار لے۔ اگر ہم موجودہ سیاسی حالات کی بات کریں تو بھارت کو شامل کر کے کسی بھی خصوصی (نئی) سیریز (مقابلوں) کا انعقاد ممکن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سیریز فی الحال ممکن دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ بات بھی آسان نہیں ہوگی کہ بھارت پاکستان کی جانب سے آنے والی کسی تجویز پر فوری رضامندی کا اظہار کرے کیونکہ بھارت کی سیاست میں کامیابی کا انحصار اِس بات پر رہتا ہے کہ کوئی سیاسی حکومت پاکستان مخالف جذبات کو کتنا بھڑکائے رکھتی ہے۔ یہ نکتہ اپنی جگہ اہم ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات پر حاوی تناؤ کم کرنے میں ’کرکٹ ڈپلومیسی‘ کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ فی الوقت پاکستان اور بھارت میں کرکٹ کے منتظم اداروں (بورڈز) کی باگ ڈور کسی سیاست دان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ دو کرکٹرز (رمیز راجہ اور سورو گنگولی) کے ہاتھ میں ہے اور یہ اِس حقیقت سے بھی یقینا فرق پڑے گا کہ پاکستان میں سابق کرکٹر عمران خان برسراقتدار ہیں۔