پشاور اور اس کے مضافات میں چوہوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔ کون سا علاقہ ہے جو ان کے شر سے خالی نہیں۔ہر جا ہر سُو ان کے چرچے ہیں۔کوئی گھر ان کے ستم سے آزاد نہیں۔ ہر علاقہ مکین اور گھر کے رہائشی ان کی ستم سازیوں شرارتوں سے نالاں و پریشاں ہیں۔ ان کو اس شر انگیز مخلوق کی دست درازیوں کا حل نہیں مل رہا۔ سوچتے ہیں اور روز نت نئی تدبیر اختیار کرتے ہیں۔ مگر یہ چابک دست مخلوق چپکے سے اور پنجوں کے بل یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں اچھلتے پھرتی ہے۔ کوئی مارنے کو دوڑے تو وہ خود ہی دیوار سے اپنا سر ٹکرا دے۔مگر ان میں سے کسی ایک پر قابو میں نہ پا سکے۔ آپ گلی میں ہوں تو آنِ واحد میں چوہے نالی میں سے ہو کر آپ سے پہلے آپ کے کمرے کے باتھ روم کے شینک کی نالی میں سے سر نکال کر پہلے آپ کے بیڈ روم میں پلنگ کے نیچے جا دھمکتے ہیں۔اب چوہوں کی شناخت بھی کون کر سکتا ہے کہ یہ کون سا چوہا ہے۔ یہ وہی تو نہیں جو میرے وار سے بچ نکلاتھا۔ کیونکہ سب کا رنگ ایک اور جسامت بھی قریب ایک ہے۔پھر ان کے نام بھی تو نہیں ہوتے جیسے بھیڑ بکریوں کو ناموں سے اور شکلوں سے الگ الگ کر کے پہچانا نہیں جا سکتا۔مگر کیا کریں۔ ہم سمجھتے ہیں اور غلط ہے یا صحیح مگر یہ تو ہماراگھر ہے۔اسی طرح ہمارے کرایے کو مکان کو یہ مخلوق بلکہ دوسری مخلوقات بھی اپنا ہی گھر سمجھ کر آجاتے ہیں۔ہمارے گھر کو اپنے بچے وغیرہ پالنے کی نرسری بنا کر یہاں سے نکل نہیں پاتے۔ بلی ہے تو چھت پر کہیں بستروں کی بڑی پیٹی کے پیچھے ٹوٹی ہوئی چارپائی کی پاٹیوں اور پھٹی کٹی ادوین کے پیچھے اپنے بچے چھپائے ان کی پرورش میں مصروف ہوتی ہے۔پھر اگر آگے جاؤ تو شیر کی یہ معصوم خالہ اپنے بھانجے کی طرح ثابت بندے پر جھپٹنے کو بھی تیار ہو جاتی ہے۔گھر میں جہاں بیگم صاحبہ کی آمد و رفت زیادہ ہوتی ہے وہاں کاکروچ زیادہ بستے ہیں۔ یا تو ان کو خاتونِ خانہ سے چڑ ہوتی ہے یا محبت ہوتی ہے کہ وہ ہمہ وقت ان کی گذر گاہ اس کچن میں مقیم رہتے ہیں۔ان کو محبت ہو نہ ہو مگر گھر والی کو ان سے شدید نفرت ہوتی ہے۔جہاں یہ ہوں گے میں وہاں نہیں جاؤں گی۔ اب گھر کی مالکن کی بات کون مائی کا لعل ٹال سکتا ہے۔سو ان کیڑے مکوڑوں کی بنیادیں ہلانے کو مرد ذات کمربستہ ہو جاتا ہے۔دوائیں خرید لاتا ہے۔مگر کیڑا مار دواؤں کا اثر دو ایک دن کے لئے ہوتا ہے۔اس کے بعد پھر وہی بری حالت کہ ایک جانب چوہوں کی یلغار اور دوسری طرف کاکروچوں کاحملہ دوبارہ سے ہوجاتا ہے۔ایسے میں اگر کچن میں یا کمرے میں کہیں چپکلی کی شکل نظر آ جائے تو عورت کیا گھر کا مرد بھی اس کو دیکھنا تک نہیں چاہتا۔ چیونٹیاں بھی اسی ایک گھر پر دعویٰ رکھتی ہیں۔ وہ اس گھر کواپنا گھر جانتی ہیں اور دیگر کیڑے مکوڑے اس کواپنی جنم بھومی قرار دے کر یہاں سے نکلنا نہیں چاہتے۔ اگر آدمی خود یہاں سے نکل جائے تو علاج ہے وگرنہ یہ مخلوق یہاں سے نکلنے والی نہیں۔پشاور پر اس وقت چوہوں نے اپنا جال پھیلا رکھا ہے۔رات کو عام یہ فورس گلیوں کوچوں میں کھلے عام گھومتی ہے۔ دن کو بھی آپ ان کوبھاگتا ہوا کم کم مگر دیکھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر وہ علاقے جو کوڑے کے ڈھیروں اور گندگی سٹاک کرنے کے بڑے پلاٹ کے پاس ہیں یا پھر رکے ہوئے پانی کی گندی نہر کے کنارے آباد ہیں۔وہاں تو چوہوں نے دھما چوکڑی مچا رکھی ہے۔ وہ اودھم مچایاہے کہ لگتا ہے اب اس شہر کے اصل باشندے ان کے ہاتھوں تنگ ہو کر رضاکارانہ طور پر شہر بد ر ہوجائیں گے۔وگرنہ تو یہ نہیں جائیں گے۔یہیں مقیم رہیں گے۔ اگر آپ کو ان کے ساتھ گذارا کرنا نہیں آتا تو اپنے لئے کوئی اور ٹھکانہ تلاش کریں۔کیونکہ ان کا تو ٹھکانہ ہمارا گھر ہے۔۔لیکن اگر ہم بہت تنگ ہوئے تو خودکہیں شفٹ ہو جائیں۔مگر اس شہر کو چھوڑکر کہاں جائیں گے۔ ہر جگہ ان کی کارستانیاں پائیں گے۔ا ن کے ستم سے کوئی علاقہ بھی فارغ نہیں۔اگر شہر بھی چھوڑدیں تو یہ نابکار شرپسندی کرنے والے ہر جگہ موجود ہیں۔ بلکہ باہر کے ترقی یافتہ ممالک تک ان کی نسلوں کا پھیلا ؤ ہے۔یہ تووہاں بڑے مزوں میں ہیں۔مگر ہم میں اور ان غیر ملکیو ں میں اتنا فرق ہے کہ وہ ہماری طرح ان کے پیچھے جوتا لے کر نہیں دوڑتے۔ بلکہ ان کی بڑی عزت کرتے ہیں۔وہاں تو یہ چوہے رنگ بھی بدل لیتے ہیں۔اپنے جسم کی سیاہی کو سفیدی میں بدل کر گوروں کی محبوبیت میں داخل ہو جاتے ہیں۔وہ سفید فام لوگ ان کی خواہ یہ سیاہ ہو یا سفید ہو خاطر داری کرتے ہیں اور ان کو اپنے گھروں کے پنجروں میں خوبصورت آواز والے پرندوں کی طرح رکھتے ہیں۔