اب تو روزانہ کایہ معمول ہوا

پہلے تو ہم کہتے تھے کہ آپ جتنا بھی مہنگا کر لیں ہم تو پٹرول سو کا ڈلواتے ہیں اور سو روپے ہی کا ڈالیں گے۔ مگر اب تو معاملہ خراب ہو کر اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ سو کے پٹرول سے توکچھ نہیں ہوتا۔ یہاں پٹرول ڈالا اور وہاں گھر پہنچے تو دہلیز ہی میں بائیک نے اندر داخل ہونے سے معذوری کا اظہار کر دیا۔اس لئے دوبارہ اسی اڑیل گدھے کو گھسیٹ کر پٹرول پمپ لے جانا پڑے گا۔ سو کون اتنے جھنجھٹ پالے۔ علاقے والے کیا کہیں گے اتنی بڑی جسامت کا آدمی ہے روزدیکھتے ہیں کہ موٹر بائیک کو کھینچ کھینچ کر پیدل کہیں جا رہا ہوتا ہے۔ان کو کیا معلوم ہم پر کیا گذر رہی ہے۔دو ایک بندوں نے پوچھا کیوں صاحب پٹرول ختم ہو گیا ہے۔ مگر صاحب کیا روزانہ کہیں گے کہ پٹرول ختم ہوگیا۔بس یہ کہہ دینے میں کیا حرج ہے کہ موٹر سائیکل شاید خراب ہوگیا ہے۔ہاتھ پر ہاتھ رکھے ہوئے دو اطراف دکانداروں میں سے کوئی پوچھ لے کیا پٹرول ہے گاڑی میں۔ اس کے جواب میں ہم ہاں ہاں اس طرح لمبی کھینچتے ہیں پھر وہ بھی اونچی آواز کے ساتھ ا س طرح  جیسے واقعی اس میں پٹرول نام کی چیز پائی جاتی ہے۔ اب کسی کوکیامعلوم کہ حقیقت کیا ہے۔اب لاکھ کے قریب کی یہ دو پہیوں والی گاڑی رکھنے والے کے پاس سو کا پٹرول نہیں یہ ہم کیوں بتلائیں گے۔مگر ”اب تو روزانہ کایہ معمول ہوا“ کہ اس بکری کو کانوں سے کھینچ کر پیدل چل کر پٹرول پمپ لے جایا جاتا ہے او رواپسی پر راستہ میں تیل کے تمام ہوجانے پر گھسیٹ کر گھر لایاجاتاہے۔مگر ہم نے بھی ٹھان رکھی ہے کہ نہ توہمارے پاس ہیں اور نہ ہی ہم سو سے زیادہ کا پٹرول ڈلوائیں گے۔وہ کیا شعر ہے ”اِدھر آ ستم گر ستم آزمائیں۔ تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں“۔وہاں جگر او رگردے لگانے کا ایک پیسہ بھی نہیں لیں گے۔ہسپتال کے ذرائع کو سرکاری بندوں نے عوام کے ساتھ سخت رعایت کر کے بتلا دیا ہے۔مگر یہاں وہی کسر پٹرول مہنگا کر کے نکال رہے ہیں۔ یہ چال تو ہمیں بھی معلوم ہے کہ ایک چیز سستی کر دو تو وہاں کے نقصان کو دوسری شئے کے مہنگا ہونے سے پوری کر لو۔مگر ہماری اپنی بھی تو ایک آن بان شان ہے۔ہم نے جب کہہ دیا کہ تم جتنا مہنگا کرو گے ہم سو ہی کا پٹرول ڈالیں گے تو بس ڈالیں گے۔کیونکہ یہ ہماری غیرت کے خلاف ہے کہ ہم اپنے کہے سے منہ موڑ لیں۔ آخر چیونٹی کی بھی اپنی اناہوتی ہے۔اس کو ذرا چھیڑو تو پاؤں پر کاٹے گی۔ معلوم ہوجائے گا کہ اوہو اس ننھی سی جان میں بھی اتنی تپڑ ہے۔ہمارا فرمایا ہوا مستند ہے۔ہم نے جب کہہ دیا سو کہہ دیا۔ ہاں اگر اپنی بات سے پیچھے ہٹے تو سیدھا دودھ والے کی دکان پر جائیں گے۔بائیک کوگھر میں تالالگا کر ہمیشہ کے لئے سِیل کر دیں گے۔ دکان سے اسی سو روپے کادودھ خرید فرماویں گے او رنوشِ جاں کر کے طاقت و توانائی حاصل کریں گے۔ پھر گھر میں اوپر سٹور میں رکھی والد صاحب مرحوم کی جوانی کے زمانے کی پرانی سائیکل نکالیں گے۔ سائیکل کے مستری سے تھوڑا ٹھوکا ٹھاکی کرواکے یہی سو روپے کے دودھ والی طاقت سائیکل چلانے میں آزمائیں گے جائیں گے پورا شہر گھومیں گے اور ذراٹریفک زیادہ ہوئی یا پھر ہواکاتیز جھونکاآیا توجھومیں گے۔پٹرول کے ختم ہوجانے کا ڈر ہوگا نہ کوئی خوف کہ کوئی ٹریفک پولیس والا روک کر ہاتھ میں پرچہ تھما دے۔ ہر راستے پر رواں دواں ہوں گے۔ون وے میں گھس جائیں گے۔کون روکے گا۔سائیکل تو ان قوانین سے آزاد ہے۔ہم نے کون سا شہر سے باہر اعلیٰ حکام کے اجلاس میں جانے کو موٹر وے پر دوڑنا بھاگنا ہے۔ بہت ہوا توشہر بھر میں اس بائی سائیکل پر گھوم پھر کر مزے کریں اور وہ بھی ایک ٹکٹ میں کئی مزے،کیا سمجھے۔