گرانقدر قومی دستاویز

1947ء میں جب سے یہ مملکت خداداد پاکستان معرض وجود میں آئی ہے‘ اس کی سلامتی کے حوالے سے بانیئ پاکستان کے ارشادات اگرچہ اس کی سمت اور رہنمائی مہیا کرتے ہیں اور انہی کی روشنی میں ہی ریاست اب تک اپنے داخلی اور خارجی سلامتی کے امور پر آگے بڑھتی رہی ہے لیکن اس مقصد کے لئے کوئی باضابطہ پالیسی تشکیل نہیں دی گئی۔ صرف آئین میں درجہ شقیں ہی کافی و شافی تصور کی جاتی رہیں جبکہ اس دوران ملک بہت سے داخلی اور خارجی بحرانوں سے گزرتا رہا۔ ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تین بڑی جنگیں بھی ہوئیں‘ ان تمام چیلنجز اور آزمائش و ابتلأ کے ادوار میں کسی باقاعدہ قومی سلامتی پالیسی کے بغیر ہی معاملات طے ہوتے رہے۔ گزشتہ چند برس سے جس طرح دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ خصوصاً نائن الیون کے واقعہ کے بعد ملک کی سلامتی کو جس طرح کے خطرات لاحق رہے اس کو دیکھتے ہوئے ملک سے دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کے لئے آپریشن ضرب ِعضب اور آپریشن رد الفساد کے نام سے مختلف کاروائیاں (آپریشنز) کئے گئے اور فورسز کے جوانوں کے ساتھ خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں شہریوں کی جانوں کی قربانیوں کے بعد بہت حد تک اس مسئلے پر قابو پانے میں کامیابی حاصل ہوئی لیکن ملک کی سلامتی کو چیلنجز بدستور درپیش ہیں۔ اس تناظر میں قومی سلامتی پالیسی 2022-26ء کئی لحاظ سے مکمل‘ جامع اور ہمہ جہت قرار دی جا سکتی ہے کہ اِس کے ذریعے ’قومی سلامتی‘ اور ’ملٹری سکیورٹی‘ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے درست اور بروقت اقدام کیا گیا ہے اُمید ہے کہ یہ دستاویز مجموعی قومی سلامتی کا تحفظ یقینی بنانے میں مدد گار ثابت ہو گی۔ پاکستان کی پہلی ”قومی سلامتی پالیسی“  کا شمار نہ صرف بہترین بلکہ انتہائی عمدہ قومی دستاویز میں کیا جا سکتا ہے۔پاکستان کی 74سالہ تاریخ میں پہلی قومی سلامتی پالیسی میں ملٹری سنٹرلائزڈ کے بجائے معاشی استحکام اور شہریوں کے تحفظ کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے اور بھارت سے تعلقات کا محور کشمیر کو بنایا گیا ہے۔ قومی سلامتی پالیسی کے اجرأ کے موقع پر مسلح افواج کے سربراہان بھی موجود تھے۔ پالیسی کی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ پڑوسی ممالک کی جانب سے جارحانہ نظریئے کا پرچار یا پرتشدد رویہ کسی بھی تنازعہ کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسی صورت میں طاقت کے استعمال کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ مسلط کی گئی تو مادر وطن کے دفاع کے لئے قومی طاقت کے تمام عناصر کے ساتھ بھرپور جواب دیا جائے گا اور پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کا ہر قیمت اور ہر صورت تحفظ کیا جائے گا۔ پالیسی کے مطابق خودانحصاری پر مبنی جدید دفاعی ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کی جائے گی اور مسلح افواج کو مزید مضبوط بنانے کے لئے روایتی استعداد کار کو تقویت دی جائے گی جبکہ دفاعی پیداوار‘ مواصلاتی نیٹ ورک کی مرکزیت‘ جنگی میدان کی آگہی اور الیکٹرانک وار فیئر صلاحیت کو بھی تقویت دی جائے گی۔ ملکی دفاع کے لئے اسلحہ کی دوڑ میں شامل ہوئے بغیر کم سے کم جوہری صلاحیتوں کو حد درجہ برقرار رکھا جائے گا۔ داخلی سلامتی کے لئے نیم فوجی دستوں‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت‘ جدت اور ضرورت پر توجہ مرکوز ہوگی۔ مذکورہ قومی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ فضا‘ بحری‘ ساحلی سلامتی یقینی بنانے کے لئے ایوی ایشن سکیورٹی پروٹوکول اور بحری نگرانی بہتر کی جائے گی جبکہ بحری‘ فضائی‘ تجارتی سلامتی اور انسداد بحری قذاقی‘ جرائم کے خاتمے کے لئے بحری قوت کو مزید مضبوط بنایا جائے گا۔ سرحدی مسائل خصوصاً لائن آف کنٹرول‘ ورکنگ باؤنڈری‘ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے مغربی سرحد پر باڑ کی تنصیب اور قبائلی اضلاع کی ترقی پر توجہ دی جائے گی۔ غلط اور جعلی اطلاعات اور اثرانداز ہونے کے لئے بیرونی آپریشنز کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جائے گا۔کسی بھی ملک اور قوم کی بقا‘ سلامتی اور استحکام کے لئے اس کی سلامتی پالیسی بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے جس کی بنیاد پر ملک کی سلامتی ترقی اور خوشحالی کی عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔