خطے میں امن کا قیام

پاکستان کی پہلی ”قومی سلامتی پالیسی“ کے درپردہ مقاصد میں شامل ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور قیام امن کی کوششوں میں تیزی لائی جائے تاکہ پاکستان کے دفاعی اخراجات اور امن و امان کی داخلی صورتحال پر ہونے والے اخراجات میں خاطرخواہ کمی لائی جا سکے یقینا امن کس ذی شعور کو عزیز نہیں ہوتا، جہاں تک پڑوسیوں کے ساتھ امن کا تعلق ہے تو پاکستان کے بھارت کے سوا تمام پڑوسیوں سے مثالی تعلقات ہیں یعنی اس معاملے میں بھارت ہی مسئلے کی جڑ ہے، بھارت اگر اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو فروغ دینے اور خطے میں طاقت کے زور سے اپنی چودھراہٹ قائم کرنے سے باز آ جائے تو اس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور اچھے ہمسائیوں کی طرح رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن گزشتہ ساڑھے سات دہائیاں گواہ ہیں کہ بھارت نے اپنے ہر ہمسائے کو ڈرانے دھمکانے اور دھونس دھاندلی کے ذریعے خود کو زور آور ثابت کرنے کی کوشش کی۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت کے دیگر ہمسایہ ممالک جیسا کہ چین‘ نیپال‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش سمیت کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں جس سے بھارت نے کسی نہ کسی موقع پر تعلقات بگاڑنے کے لئے کوئی نہ کوئی ایسی حرکت نہ کی ہو جو بین الاقوامی سطح پر بحث اور تنقید کا موضوع بنی۔ اسی تناظر میں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ بھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر کا معاملہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی کلید ہے۔ جس دن بھارت اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کے حل کیلئے کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دیدے گا اس دن سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور معاملات بہتری کی طرف گامزن ہو جائیں گے لیکن پانچ اگست دوہزارانیس کو بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کی شقیں (تین سو ستر اور پینتیس اے) ختم کرنے سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ بھارت کشمیر مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے اور بالخصوص پاکستان کی سلامتی کے لئے ایک مستقل خطرہ بنا ہوا ہے کیونکہ امریکہ اور اسرائیل جیسے ممالک مسلم دنیا کی پہلی جوہری طاقت کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں اور اِس مقصد کے لئے وہ بھارت کا کندھا استعمال کر رہے ہیں۔یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ بھارت جیسا ہمسایہ ملک ملاہے جس نے خطے کی ترقی اور خوشحالی کی بجائے ہمیشہ بالادستی کے خواب دیکھے ہیں اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کا یہی اصول رہا۔ جبکہ آج کل دنیا میں برابری کی سطح پر تعلقات کا دور ہے اور فوجی طاقت کی بجائے اقتصادی قوت و طاقت کو ترجیح حاصل ہے۔ جس کی بہترین مثال چین ہے جس نے فوجی طاقت کی بجائے اقتصادی طاقت سے پوری دنیا میں اہمیت منوالی ہے۔