گرتا ہوا تعلیمی معیار

 تعلیمی معیار گر رہا ہے ہے برصغیر کے اکثر سیاسی خاندان اپنی اولادکو سیاسی میدان میں اتارنے سے پہلے برطانیہ کی کسی یونیورسٹی سے ڈگری دلوانا قا بل فخر بات تصور کرتے تھے ایک دور ایسا ضرور تھا کہ وہاں کی یونیورسٹیوں کا ایک معیار تھا پر اب وہ بات کہاں آج کل برطانیہ کی کئی یونیورسٹیں مالی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہیں ان میں آج کل داخلے کیلئے پیسہ بھی چلتا ہے اور سیاسی اثر و رسوخ بھی۔ لندن کے ایک مقبول روز نامے دی سن میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیاہے کہ کس طرح پاکستان کے ایک مقتدر سیاسی گھرانے نے اپنے ایک جواں سال فرد کیلئے آکسفورڈ میں داخلہ کے واسطے پیسہ اور سیاسی اثر و رسوخ استعمال کیا،یہ تو بات ہوئی برطانیہ کی اگر دیکھا جائے تو اپنے ملک میں بھی حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں اور یہ بات اب اظہر من الشمس ہے کہ تعلیم کا معیار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر ہونے کی بجائے تنزل کا شکار رہا ہے۔یہ تو ایک مانی ہوئی بات ہے کہ تعلیمی معیار سے تمام شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوتے ہیں۔اگر یہ معیار بلدنی کی طرف جائے تو اس سے مثبت اثرات تمام شعبوں پر پڑتے ہیں اور اگر یہ زوال کا شکار ہوتو تمام شعبے زوال پذیر ہوجاتے ہیں۔ اب ایک اور مسئلے کا تذکرہ ہوجائے اور یہ ہمارے رویوں میں دوغلے پن اور تضاد کا مسئلہ ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان دونوں نے مل کر اس ملک کی سیاست اور اخلاقیات کا دیوالیہ نکال دیا ہے،کیا ارباب بست کشاد کو یہ پتا نہیں کہ اس وائرس کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ عوام کے جمگھٹے بھی ہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے کرتا دھرتا اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ کورونا کی پانچویں لہر شروع ہوچکی ہے اور یہ کہ سردیوں میں یہ مزید شدت کر گئی ہے اور اگر مناسب حفاظتی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ لہر پہلی لہروں سے زیادہ جان لیوا ثابت ہو گی اس لیے یہ بات بڑی ضروری ہے کہ اس وارننگ کو سنجیدگی سے لیا جائے اور سماجی فاصلے رکھے جائیں اس ضمن میں اپوزیشن لیڈروں کو زیادہ ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا اختلاف رائے بیشک ان کا حق ہے اور کسی مسئلے پر ایجی ٹیشن کرنا بھی ان کے حقوق میں شامل ہے پر وہ ایسی حرکات سے اجتناب کریں کہ جن میں عوام کے نقصان کا زیادہ احتمال ہو بہتر تو یہ ہوگا کہ سردست وہ جلسے اور جلوس منعقد کرنے کے بجائے اپنا پروگرام آن لائن اجلاسوں اور الیکٹرونک میڈیا پر ٹاک شوز تک ہی محدود رکھیں اور عوام کو جمگھٹے کی صورت میں یکجا نہ ہونے دیں کہ اس روش سے کورونا وائرس کے پھیلنے کا زیادہ خد شہ ہے۔ کوئی بھی سیاستدان بھلے اس کا تعلق حزب اقتدار سے ہو یا حزب اختلاف سے یہ بات نہ بھولے کہ اگر ملک سلامت ہوگا تو تب ہی ان کی سیاست چمک سکتی ہے اور ملک عوام سے بنتے ہیں اگر خاکم بدہن عوام ہی نہ ہوں تو پھر کہاں کا ملک اور کہاں کی سیاست لہٰذا اس وقت جو سب سے اہم مسئلہ اس ملک کو درپیش ہے وہ ہے کورونا وائرس کی وبا کہ جسکو بہرصورت ضروری حفاظتی اقدامات اٹھا کر ہم نے من حیث القوم شکست دینی ہے اس وقت یہ ملک کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے خلاف جنگ میں مصروف ہے جس کیلئے حکومت وقت کو ملک کے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ دیکھا جائے تو اس وقت اگرچہ سیاسی سرگرمیاں کسی حد تک کم پڑ گئی ہیں تاہم پھر بھی اپوزیشن اور حکومت دونوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اس معاملے میں دانشمندی کا مظاہرہ کریں عوام بھی کورونا کی نئی لہر کے پیش نظر احتیاطی تدابیر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں اور اس طرح لائحہ عمل طے کریں کہ دوبارہ مکمل لاک ڈاؤن کی طرف حالات نہ جائیں جس سے معاشی مسائل جنم لیتے ہیں اور پھر معمولات زندگی متاثر ہونے کی صورت میں عام آدمی کو خاص طورپر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے بہر صورت بچنا ضروری ہے۔