کاش کوئی ایسا بھی دن ہو کہ ”یہا ں جو پھول کھلا ہے کھلا رہے یونہی۔یہاں خزاں کو گذرنے کی بھی مجال نہ ہو“کوئی غربت کا حوالہ نہ ہو۔سنٹر نہ ہو کہ جس کا نام ہو کوئی بھوکانہ سوئے۔جا بجا خیرات کرنے والی تنظیموں کے دسترخوان سڑک کنارے کی سبز پٹی پر بچھے نہ ہوں۔ کسی کی روزی روٹی میں تنگی تُرشی نہ ہو۔ کوئی راستہ بند نہ ہو۔جس طرف چلتے جاؤ کوئی روکنے والانہ ہو۔کوئی سیمنٹ کا بلاک راہ میں حائل نہ ہو۔۔کسی کو راستہ ملے تو وہ مستقبل کی راہ پر مستقل چلتا جائے۔ اس کو مواقع دستیاب ہوں۔اس کے لئے کچھ بھی کمیاب نہ ہو وہ ہر بارگاہ میں باریاب ہو شاداب ہو زریاب ہو صحت یاب فیض یاب اورکامیاب رہے۔ ہر شئے موجود ہواور فراواں ہو ارزاں ہو۔قابلِ حصول ہو سہل الوصول ہو۔ہر چند قاعدہ اصول ہوزندگی کانٹوں کی سیج نہ ہو ہر قدم پھول ہو زندگیوں میں کٹوتی نہ ہو عمر میں طول ہو۔وطن کی مٹی میں سے سچے موتی اُبھر اُبھر کر سر آسماں بہاریں دکھلائیں۔ کوئی ایسا بھی دن ہوگا۔ جب ہم وطن خوشحالی کی زندگی کو انجوائے کر رہے ہوں۔اول تو اندازہ ہے کہ ”ہم دیکھیں گے وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے“ وہ فوزِ عظیم وہ کامیابیوں کامرانیوں کی گذرگا ہ جس پر سے ہوکر ہم اپنی منزلوں کی جانب بڑھتے چلے جائیں گے۔لیکن اگر ہماری زندگی میں یہ دیکھنا گراں ہے تو کیا ہماری نسلیں دیکھیں گی۔کیونکہ امید ہو محنت ہو اور دعا تو دور ہوئی منزلیں ایک قدم اٹھاؤ تو دو قدم چل کر خود قریب آ جایا کرتی ہیں۔دل کے دامن میں امید کی کرنیں ہر کسی نے چن رکھی ہوتی ہیں۔کیونکہ ”خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک۔گذر ہی جائے گی یہ رُت بھی حوصلہ رکھنا“۔یہ تمام ارمان اور خواہشات آرزوئیں تمنائیں حسرتیں پوری ہو سکتی ہیں۔مگر ہم نے اگر محنت کا دامن یونہی تھامے رکھا۔ وہ دن دور نہیں جب ہر کھیتی سرسبز ہو اور اس میں پھل پھول ہوں۔ پرندے چمن و باغ و سبزہ زار میں آئیں اور اپنی سی چہکار سے اس گلستاں کو مزید خوبصورت بنا ڈالیں۔ اس کو دوسرے پنچھیوں کے لئے مثالی سرزمین بنا کر پیش کر دیں کہ یہا ں جو آئے سو ایک بار آئے اور پھر یہاں سے اس کی خواہش نہ ہوکہ دوسرے چمن زار کو کوچ کرے۔یہا ں امن کا دور دورہ ہو بہار کی روشنیاں ہوں جو پھولوں کے رنگوں میں سے ہو کر آنکھوں کو خیرہ کرتی ہوں۔ یہاں خزاں کی مردگی اور پھولوں کی پژمردگی کا فقدان ہو۔یہی چمن یہی جہان ہو یہ گلستان ہو۔اس میں یہاں کے رہائشی سنگ سنگ ہم قدم ہو کر چلتے پھریں اور رک کر سانس لیں تو نئی تمنائیں ان کے تن بدن میں سرایت کر کے ان کے عزم کو مزید پختگی عطا کریں۔خدا کرے کہ ہر چمن ایسا سر سبزہو ”اورایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو“۔ شیر او ربکری ایک گھاٹ پانی پئیں۔کسی شیر کی بری نظر کسی ہرنی پر نہ ہو۔امن کی آشا سچ مچ کے خواب دکھلائے کہ جس کی تعبیر بھی آنکھوں کے اندر پلکوں پر ستارے بن کر ٹمٹمائے۔ہر سُو چین کی بانسریا بجتی ہو۔ ہر کوئی کھلے عام بازار اور سڑک پر گھومے۔اس کوکسی بات کا ڈر نہ ہو۔مگرکیا ہوا کہ موجودہ دور اپنی ابتری میں بھی مثال ہے۔مگر آنے والے دن ہمارے لئے نیک ثابت ہوں گے ہم خوش و خرم ہوں گے۔”بلا سے ہم نے دیکھا تو اور دیکھیں گے۔ فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کاموسم“۔”رات جب شدتِ ظلمت سے جل اٹھتی ہے ندیم۔ لوگ اس وقفہئ ماتم کو سحر کہتے ہیں“۔ ”دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے۔لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی توہے“۔رات کا اندھیرا جتنا جتنا بڑھتا جاتاہے اتنا ہی یہ امید پختہ ہوتی جاتی ہے کہ سحر قریب ہے۔ارضِ وطن میں اس سوھنی دھرتی پر جتنی بھی کوششیں جاری ہیں کہ چمن ہرابھرا رہے اور روشنیاں بجھنے نہ پائیں وہ تمام تر کاوشیں رنگ لائیں گی۔ کیونکہ مہندی لگاتے ہی ہاتھوں پر رنگ نکھر نہیں آتا۔اس کے لئے تھوڑا سہی مگر انتظار کرنا پڑتا ہے۔تب جا کر مہندی رنگ لاتی ہے۔ اس رنگ و نور میں آنکھیں نہا جائیں گی۔آسماں سے رنگ و نور کی پریا ں اتریں گی۔ ہمارے دیس کی فضا رنگین ہو گی۔