امن کی تاراجی

اس وقت ایران کے صدر روس کے دورے پر ماسکو پہنچے ہیں جو کئی حوالوں سے اہم بین الاقوامی واقعہ ہے، روس کے امریکہ سمیت نیٹو ممالک کے ساتھ اسوقت تعلقات کشیدہ ہیں اور یوکرین کے مسئلے پر روس اور امریکہ کے درمیان تناؤمیں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اگر یہ مسلہ فوری طور پر حل نہ ہوا اور طول پکڑ گیا تو پورا یورپ ایک مہیب جنگ کا شکار ہو جائے گا جس کے شعلے پھر دنیا بھر میں پھیل سکتے ہیں۔ ایسے میں ایران کے صدر کا دورہ روس امریکہ اوراس کے اتحادی ممالک کیلئے خصوصی تشویش کا باعث ہے۔ دورے کے موقع پرروس اور ایران کے درمیان کئی اہم دفاعی اور اقتصادی معاہدے ہو سکتے ہیں۔ ایران جس پر امریکہ نے پابندیاں عائد کی ہیں، روس کے ساتھ اپنے تعلقات مزید مضبوط کرکے اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ دوسری طرف روس بھی ایران کے صدر کے دورے کو امریکہ پر دباؤ کیلئے استعمال کرسکتا ہے۔جہاں تک یوکرین کا تعلق ہے تواس وقت وہاں پرصورتحال یہ ہے کہ یوکرین کے مسئلے پر روس نے امریکہ سے دوبارہ مذاکرات سے انکار کردیا ہے اور موقف اپنایا ہے کہ جب تک امریکہ ہمارے مطالبات کا جواب نہیں دے گا تب تک مذاکرات نہیں ہونگے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تک مذاکرات دوبارہ شروع نہیں ہوسکتے جب تک مطالبات کا واضح جواب نہ دیا جائے۔ امید کرتے ہیں کہ مذاکرات دوبارہ ہوں۔انہوں نے کہا کہ ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ مطالبات کا جواب دیں گے اور ہم انتظار کررہے ہیں۔دوسری طرف برطانیہ کے یوکرین کو ٹینک شکن میزائل دئیے ہیں جن سے یہاں پر کشیدگی میں مزید اضافے کا امکان ہے۔جرمنی نے بھی دھمکی دی ہے کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو جرمنی روس کے گیس پائپ لائن کارستہ روک دے گا جو جرمنی کے ذریعے باقی یورپ تک گیس سپلائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو دنیا میں امن کی بجائے جنگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔اب اگر بات کی جائے اپنے وطن کی تو یہاں پر کورونا کی ایک اور لہر کے خطرات کاسامنا ہے اور حکومت کی طرف سے ایک بار پھر پابندیوں کی باتیں سامنے آرہی ہیں۔ ایسے حالات میں کہ جب کورونا کی پہلی لہروں سے ابھی زندگی معمول پر نہیں آئی ایک بار پھر پابندیاں مزید مشکل حالات کا باعث بنیں گی۔ان حالات کے پیش نظر اس ملک کے تمام لیڈروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ کسی ایسی حرکت کے مرتکب نہ ہوں کہ جس کی وچہ سے وطن عزیز سیاسی طور پر غیر مستحکم ہو۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔