امریکی کانگریس نے افغانستان میں امریکہ کی ناکامی اور طالبان کی فتح کے اسباب کا تجزیہ کرنے اور مستقبل میں ایسی ناکامیوں سے بچنے کی حکمت عملی مرتب کرنے کیلئے ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کردیا ہے جس میں دونوں بڑی امریکی جماعتوں کے سولہ سولہ نمائندے ہوں گے اور یہ ایک سال بعد ابتدائی رپورٹ جبکہ تین سال میں حتمی رپورٹ پیش کرے گا۔یہ کمیشن 2001 میں افغانستان جنگ شروع کرنے کی وجوہات اور اس جنگ سے پہلے افغانستان سے متعلق امریکی پالیسیوں کا بھی جائزہ لے گا۔ اس کمیشن کی بنیاد بننے والے نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ میں کہا گیا ہے، کمیشن افغانستان میں جنگ کا جامع جائزہ لے گا اور مستقبل کی کاروائیو ں کیلئے حکمت عملی اور سٹریٹیجک طریقہ کار کی سفارشات پیش کرے گا، جن میں فوجیوں میں اضافے و کمی اور مقررہ ڈیڈ لائن کی وجہ سے پڑنے والے اثرات بھی شامل ہیں۔اس قانون میں امریکہ کوکہا گیا ہے کہ وہ چین کے مقابلے میں تائیوان کی غیر متناسب دفاعی صلاحیتوں کوبہتر بنائے اور امریکی دفاعی اخراجات بھی گزشتہ سال سے 28 ارب ڈالر بڑھا دیئے گئے ہیں۔اس کمیشن کے نکات کار میں مستقبل کی فوجی کاروائیوں کیلئے حکمت عملی اور تزویراتی طریقہ کار کی سفارشات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنی ناکامی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور یہ آئندہ بھی دوسرے ممالک میں مداخلت کرتا رہے گا سیگار 2016 سے اب تک افغانستان کے مسائل اور ان کے حل پر سات رپورٹیں تیار کر چکا ہے۔ مشہور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے کچھ عرصہ قبل سیگار کے دو ہزار صفحات پر مشتمل ان افغانستان پیپرز کے نقول تین سال کی قانونی جدوجہد کے بعد حاصل اور شائع کیے تھے جن میں افغانستان میں امریکی ناکامی کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ ان تحقیقاتی رپورٹوں کی موجودگی میں مزید تحقیقات کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے، وہ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔امریکہ چار صدور کی نگرانی میں افغانستان میں بیس برس گزارنے، تقریبا آٹھ لاکھ فوجی یہاں لگانے، ٹریلین ڈالرز خرچ کرنے، چوبیس سو امریکی فوجیوں کو مروانے اور بیس ہزار کو زخمی کروانے، چھیاسٹھ ہزار افغان سپاہیوں کو کھونے، پچاس ہزار افغانوں کو مارنے، اپنے اکیاون اتحادیوں کو جنگ میں شریک کرنے اور ان کے بارہ سو سپاہی ہلاک کروانے، ساڑھے چار سو انسانی حقوق کارکنوں اور پچھتر صحافیوں کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھانے، پچیس لاکھ افغانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے اور تقریباً پینتیس لاکھ کو اندرون ملک بے گھر کرنے کے بعد بھی طالبان کو شکست نہیں دے سکا جس نے محض دس دن میں افغانستان بھر پر قبضہ کرلیا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکہ صومالیہ، ویتنام اور عراق میں تو ناکام ہوا ہی تھا اب افغانستان میں بھی ناکام ہوگیا کابل کے تیز زوال نے 1975 میں ویت نام میں سیگون کے ذلت آمیز امریکی زوال کی یاد تازہ کردی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ امریکہ شکست قبول کرنے اور اپنی غلطیاں ماننے کیلئے آمادہ نہیں تو ایسے میں وہ اس ناکامی سے کیا سبق حاصل کرے گا۔جارح کی مزاحمت اور اپنے وقار، مذہب اور وطن کا دفاع افغانیوں کی سرشت میں شامل ہے مگر امریکہ نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف افغان عوام کی مزاحمت کی تاریخ نظر انداز کی اور ناحق چڑھائی کردی۔ ان کا خیال تھا طالبان کو شکست دینا اور ایک متبادل مرکزی حکومت قائم کرنا ممکن ہے مگر یہ ممکن ہی نہیں تھا۔افغانستان پر حملہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بات چیت سے القاعدہ کا مسئلہ حل کیا جانا ممکن تھا مگر طاقت کے زعم میں افغانستان پر چڑھائی کردی گئی۔ طالبان روپوش ہوگئے۔ ان کی حکومت کے خاتمے دو سال بعد امریکی سنٹرل کمانڈ نے انہیں ”ختم شدہ طاقت“ قرار دیا۔ رمز فیلڈ نے 2003 کے اوائل میں اعلان کیا کہ مشن پورا ہوگیا ہے اور پھر بش اور اس کی ٹیم نے عراق پر حملہ کرکے ایک فاش غلطی کردی۔ اس دوران طالبان سے بات چیت کا راستہ بند رہا اور فروری 2006 میں ہزاروں طالبان نے پورے اضلاع پر قبضہ کرنا اور صوبائی دارالحکومتوں کا گھیرا کرنا شروع کردیا۔ اگلے تین سالوں کے دوران طالبان نے ملک کے بیشتر جنوبی اور مشرقی حصوں پر قبضہ کرلیا۔ اس دوران امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ ہو گئی مگر فوج بڑھی تو جانی و مالی نقصان بھی زیادہ ہوا۔ اس دوران امریکی اخراجات 110 بلین ڈالر تھے۔ پھر اپنی یاداشتوں میں بش نے لکھا ہے”افغان حکومت کے غیر معمولی خرچ سے روکنے کی کوشش میں ہم نے افغان فوج کی تعداد بہت کم رکھی تھی افغان حکومت اور اس کے جنگجو اتحادی اکثر بدعنوان تھے۔ انہوں نے افغانیوں کے ساتھ برا سلوک کیا، زمینیں ہتھیائیں، سرکاری ملازمتوں کی بندربانٹ کی اور اکثر امریکی سپیشل آپریشن فورسز کو اپنے سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا اور یوں مزاحمت مضبوط ہوتی گئی۔ امریکہ نے جنگجو سرداروں اور اشرافیہ کا ایک ایسا استحصالی طبقہ افغان عوام پر مسلط کردیا جس نے اربوں ڈالرز کی رقم ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کے بجائے خوردبرد کرلی۔