قیاس آرائیاں: سیاسی شکست و ریخت

ایک مرتبہ پھر پاکستان کے سیاسی اُفق پر ’قیاس آرائیوں‘ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور ایک مرتبہ پھر حزب اقتدار و حزب اختلاف میں سمجھوتے (deal) کی باتیں ہو رہی ہیں! تازہ ترین قیاس آرائی یہ ہے اور حکمراں جماعت کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ (نواز) کے (کم از کم) چار سینئر اراکین ایسے ہیں جنہوں نے نواز شریف اور شہباز شریف کے متبادل اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کر دی ہیں اور اطلاعات کے مطابق اِن چاروں سینئر رہنماؤں کی اہم سیاسی  شخصیات سے ملاقاتیں بھی جاری ہیں۔ سیاست میں جوڑ توڑ  کاکھیل پاکستان کی سیاست میں پہلے بھی دیکھا جا چکا ہے۔ سب سے پہلے‘ مسلم لیگ (نواز) کے رہنماؤں کے درمیان مبینہ اختلافات اور شریف خاندان کے اندر سب سے زیادہ زیر بحث جھگڑا تحریک کے رہنماؤں کا پسندیدہ موضوع رہا۔ خود تحریک کی صفوں میں رسہ کشی کی خبریں آئیں لیکن چند روز شور شرابے کے بعد معاملات جوں کے توں چل رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا سیاسی مخالفین کا مشغلہ بن گیا ہے۔ اقتدار کو طول دینے اور اقتدار میں آنے کے لئے اگر عوام کی طاقت پر بھروسہ کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر اور پائیدار نتیجے کا حامل عمل ہونے کے ساتھ تبدیلی کا پیش خیمہ بھی ہوگا۔ لائق توجہ امر یہ ہے کہ اِس سارے قیاس آرائیوں کے ماحول میں عام آدمی (ہم عوام) پریشان حال کبھی ایک تو کبھی دوسرے فریق کی طرف دیکھ رہا ہے‘ جو اُس کے نجات دہندہ کے طور پر سامنے آئے۔ عوام کی اکثریت پاکستان میں سیاسی استحکام دیکھنا چاہتی ہے لیکن سیاست دان بلوچستان کی بی اے پی (باپ پارٹی) سے لیکر متحدہ (ایم کیو ایم) کی حالیہ قانون سازی کے حق میں یا مخالفت میں ووٹ دینے کی خواہش پر سکتے میں ہے کہ پاکستان میں ہردن قیاس آرائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ نظر آتا ہے جو ظاہر ہے کہ ملک کی معیشت و معاشرت کیلئے اچھا نہیں ہے۔ عام آدمی کو وضاحت کی ضرورت ہے اور اُسے یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ آخر سیاسی محاذ پر کیا ہو رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں کیوں ایک دوسرے سے الجھی ہوئی ہیں اور حکمراں جماعت عوام کی بہتری کیلئے اقدامات (اپنی کارکردگی) پر توجہ کیوں نہیں دینا چاہتی۔ پاکستان میں اگر کوئی تبدیلی آنی بھی ہے تو اسے آئین کے مطابق  یعنیآئینی فریم ورک میں ہی آنا ہو گا۔ اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کا قانونی طریقہ موجود ہے اور جمہوریت تو نام ہی ایک ایسے طرزحکمرانی کا ہے جس میں ’ڈیل یا ڈھیل‘ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حزب اختلاف کی جماعتیں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کر چکی ہے جن کے تیاریاں اور ملاقاتیں (کارکنوں سے رابطے) جاری ہیں اور آنے والے چند ہفتوں میں سیاسی ماحول میں تیزی آنے کا امکان ہے۔ اِس مرحلے پر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ جمہوریت‘ چاہے کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو‘ اسے جاری و ساری رہنا چاہئے۔ تمام سیاسی اور غیر سیاسی کرداروں کا مستقبل آئینی اور جمہوری راستے پر چلنے ہی میں محفوظ ہے بصورت ناکامی ملکی معیشت مزید خرابی سے دوچار ہوگی۔ سیاسی جماعتوں میں شکست و ریخت کے جاری سلسلے پر فخر اور اِس کا انکار کرنے والے فریقین کو عام آدمی کی مشکلات کے بارے بھی سوچنا چاہئے۔