جتنا راستہ اتنی گاڑی

اس کاروباری شہر میں کچھ منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔ ایک تو راستے تنگ پھر اوپر سے ٹریفک کی بہتات اور پھر عوام الناس کی بھیڑ بھاڑ کا عالم۔ایسے میں ا س مسئلے کا علاج بھی تو ممکن نہیں۔یا تو بلند و بالا عمارات کو ڈھا کر راستوں کو چوڑا کیا جائے۔ پھر اس راہ میں جومکانات آئیں تو ان پر بھی بلڈوزر پھیر کر ان کو ہموار کردیں۔تاکہ چٹیل میدانوں کی شکل نکل آئے۔پھر جو گاڑی ہے بس دوڑتی بھاگتی نظر آئے۔خوب کھیل تماشے برپا ہوں۔ بڑے صاحب اپنی بڑی گاڑی کی نمائش کے لئے ا س میدان کو مخصوص سمجھیں۔ بازار اور گلی کوچوں کے اندر بنے ہوئے مکانات کے مالکان کی بڑی گاڑیاں انھیں راستوں سے گذرتی ہیں تو رش زیادہ ہو جاتا ہے۔جتنا راستہ اتنی گاڑی۔گاڑی آگے آگے جا رہی ہوتی ہے او رپوری ٹریفک اس بڑے سائز کی اونچی لمبی گاڑی کے پیچھے پیچھے آہستہ سے رواں رہتی ہے۔ پھر نہ تو اس لاکھوں کی گاڑی کو آگے راستہ ملتا ہے اور نہ ہی ان کے پیچھے پیچھے آنے والوں کو کچھ سجھائی دیتا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ اس گاڑی سے آگے کیسے نکل جائیں۔ تھوڑا سا راستہ اگر بچتا ہے تو اس پر موٹر سائیکل سوار اوپر نیچے ہو کر اورکسی کو دھکا دے کر اپنا راستہ نکال لیتے ہیں۔ورنہ تو رکشہ چنگ چی اور دوسری چھوٹی گاڑیاں تو اس وقت تک راہ نہ پائیں گی جب تلک کہ یہ بیش قیمت  فل سائز گاڑی اپنے گھر کی موڑ نہ کاٹ لے۔شہر کے حالات آگے ہی رش کی وجہ سے روز بروز زیادہ تر مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔ اوپر سے ہر آدمی کو عالمی سطح کی مالی پریشانیوں کا سامنا ہے۔غریبوں کو ذرا چھیڑو تو رو پڑیں۔ اس پر شہر کی گاڑیوں نے شہر کے ہجوم میں بھرپور اضافہ کر دیا ہے۔کسی کو کسی کل قرار نہیں۔ جس کو دیکھو اسی شہر میں آمقیم ہوا ہے۔ شہر کی سہولیات ہیں سکول کالج اور یونیورسٹیاں ہیں بڑے ہسپتال ہیں خواہ سرکاری ہوں یا پرائیویٹ۔ عوام ان آسانیوں سے فائدہ اٹھانے کو صبح اس شہر میں داخل ہوتے ہیں اور رات گئے واپس لوٹتے ہیں۔ طالب علم ہیں تو ہاسٹلوں میں قیام کئے ہیں۔ سہولت کو دیکھ کر دور پار کی فیملیاں بھی یہاں اپناگھر یا کرایے پر مکان لے کر آن بسے ہیں۔ایسا ہونا برا نہیں۔ ہر ملک میں یہی صورتِ حا ل ہے۔پورے پاکستان سے اس کے باشندے سہولیات او رکاروباری مقاصد کے تحت کراچی جیسے شہر میں بس گئے۔ وہاں ارض ِ وطن کی ہر قوم ہر شہر کا آدمی پہنچا ہواہے۔وہاں صرف کراچی شہر کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے۔یہ تو قوموں کے مزاج میں ہے کہ جہاں دانے پانی کی مشکل ہو وہاں سے کوچ کر جاتے ہیں۔اب کراچی کی طرح نیویارک شہر میں ہر ملک سے لوگ پہنچ کر آسانی کی زندگی جی رہے ہیں۔وہا ں کی سہولیات سے فائدہ لے رہے ہیں۔کاروبار ہے یا نوکریاں ہیں۔ وہاں سے نکل کر واپس آئیں تو ان کا معاش خطرے میں پڑجائے۔کراچی تو بہت وسیع شہر ہے۔اگر کراچی کے اندر سے گاڑی میں بیٹھ شہر سے باہر جائیں۔ا س موقع پر بہ فرض محال راستے میں کوئی رش نہ ہو۔سڑکیں صاف ہوں تو آپ کی گاڑی صرف شہر ہی میں ایک گھنٹہ تک سفر کرکے شہر کے باہر جانے والے دروازے تک پہنچے گی۔ وہاں راستے کشادہ اور شہر ب ڑا ہے۔مگر جہاں تک اس سوھنے شہر پشاور کا مسئلہ ہے یہاں تو تعمیرات کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔رش زیادہ ہو رہا ہے اور سڑکیں وہی کی وہی ہیں۔ یہاں تعمیر کے حوالے سے ترقی کی رفتار چیونٹی جیسی ہے۔چونکہ یہ کراچی کی طرح کاروباری شہر نہیں۔اس لئے یہاں تعمیرات بھی سست رفتاری سے ہوتی ہیں۔۔آدمی آتے جائیں گے بھیڑ بڑھتی جائے گی۔مگر اس میں سدھار کا آنا یا لایا جانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔جو نیا راستہ بنتا ہے تو خیال آتا ہے چلو اب شاید رش میں کمی آئے۔ مگر وہ راستہ بھیڑ کے ہاتھوں ہائی جیک ہوجاتا ہے۔اس پر گاڑیوں کا اژدہام انسانی ہجوم کی فراوانی اور رکشوں بائیکوں سوزوکیوں کی آمد و رفت شروع ہو جاتی ہے۔دو چار دن پرسکون ہوتے ہیں۔ بعدمیں وہی شور شرابا او ردھما چوکڑی وہی آوت جاوت شروع ہو کر اختتام کا نام نہیں لیتی۔