ذمہ داری کااحساس

اس ملک میں کئی لوگ ایسے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ وطن عزیز میں بھی چین کی طرح کا صدارتی نظام حکومت قائم ہو اور کرپٹ افراد کو بالکل اس طرح قرار واقعی سخت سزادی جائے کہ جیسے وہاں دی جاتی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ قدرت نے بعض ممالک کو ایسے دیانت دار غریب پرور اور دور اندیش رہنما عطا کئے کہ جو نہ خود پیٹ رکھتے تھے اور نہ کسی حرام خور کو قومی وسائلِ پر ہاتھ صاف کرنے کی اجازت دیتے تھے اس قسم کے لیڈروں نے پھر اپنی قوموں اور ممالک کوایسے اعلیٰ اور خود احتسابی پر مبنی سسٹم دئیے کہ جن میں کرپٹ افرادپنپ ہی نہ سکتے تھے ان ممالک میں چین بھی شامل تھا۔ ان ممالک کے حکمرانوں نے اپنے ممالک کو عوام کے خادموں کی طرح چلایا ہمارا المیہ یہ رہا کہ ماضی میں ہمارے حکمرانوں نے اس ملک کو بادشاہوں کی طرح چلایا اور عوام کو اپنی رعایا سمجھا، سیاست جو کہ ملک اور قوم کی خدمت کاشعبہ ہے کو تجارت کی حیثیت دی گئی ہے اوریار لوگوں نے جان لیا ہے کہ اس ملک میں سیاست سے زیادہ منافع بخش تجارت کوئی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں عام آدمی کی زندگی کے حالات کو سدھارنے کی بجائے مخالفت برائے مخالفت کا رویہ اپنا گیا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوامی فلاح کے منصوبوں اور عام آدمی کی زندگی میں سہولت پیدا کرنے کیلئے آپس میں تعاون کریں۔ دوسری طرف ملک میں کورونا کی پانچویں لہر جس کا خدشہ ظاہر کیا جاتارہا کے اثرات واضح ہونے لگے ہیں اورپاکستان میں یومیہ کورونا کیسز کی دوسری بلند ترین تعداد سامنے آئی ہے‘ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک میں کورونا کے 6 ہزار 808 نئے کیسز سامنے آئے جو وبا کے آغاز سے اب تک یومیہ کیسز کی دوسری بڑی تعداد ہے۔گزشتہ سال 13 جون کو ایک دن میں 6 ہزار 825 کورونا کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ملک میں صرف ایک دن میں مثبت کیسز کی شرح 9.48 فیصد سے بڑھ کر 11.55 فیصد تک پہنچ گئی ہے جب کہ کورونا سے متاثر مزید 5 افراد جان کی بازی ہار گئے، ملک میں کورونا سے اموات کی کل تعداد 29 ہزار 42 ہوچکی ہے۔یہ حالات متقاضی ہیں بہت احتیاط کے، تاہم دیکھا جائے تو ہم میں احتیاط کا مادہ کچھ زیادہ ہی کم ہے۔ جس کا اندازہ کورونا کی پچھلی لہروں میں لگایاگیا ہے۔اس حوالے سے ضروری ہے کہ ایک بار پھر کورونا ایس اوپیز پرعمل درآمد کو باقاعدگی کے ساتھ مانیٹر کرنے کے انتظامات کئے جائیں ورنہ پھر حالات لاک ڈاؤ ن کی طرف جا سکتے ہیں جس سے معاشی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔بین القوامی منظر نامے پر پیش آنے والے واقعات میں سے ایک مسلم ممالک اور بین الاقوامی برادری سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی اپیل ہے جو افغانستان کے قائم مقام وزیراعظم ملا محمد حسن آخوندانے کابل میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کی۔ طالبان وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے تمام شرائط مکمل کردی ہیں اور اب بین الاقوامی برادری ملک میں طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے۔وزیر اعظم آخوند نے مزید کہا، میں خاص طور پر اسلامی ممالک سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور ہمیں تسلیم کریں۔طالبان نے پچھلے سال اگست سے کابل کا کنٹرول سنبھالا ہوا ہے تاہم بین الاقوامی برادری نے طالبان کی حکومت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔