جب کورونا کی وبا آئی تو ہم بہت احتیاط کرنے لگے لیکن ایک وقت آیا کہ ہماری تدبیریں اُلٹی ہو گئیں، احتیاط کارآمد نہیں رہا اور ہمیں کورونا نے گھیر لیا۔ ایک رفیق کار جنہیں ہم نے دو دن قبل جوشاندہ پیتے دیکھا تھا، نے واٹس ایپ پر اطلاع دی کہ اُس کا کووڈ ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور وہ قرنطینہ میں چلا گیاہے۔ ہمیں خدشہ لاحق ہوا کہ یہ بیماری ہمیں بھی ہو سکتی ہے اس لئے کہ ہم ان کے قریب بیٹھے تھے اور گفتگو بھی کی تھی۔ہمارا شک صحیح نکلا۔ ہمارا ٹیسٹ مثبت آیا۔ ہم نے ساتھیوں کو خبردی اور قرنطینہ میں چلے گئے۔ پیراسٹامول اور اینٹی بائیوٹکس کھاتے رہے۔ دو ہفتے میں اس بیماری نے ہمیں جھنجوڑ کے رکھ دیا۔ پھر حالات بدلنا شروع ہوئے۔ بخار اُتر گیا اور گلا ٹھیک ہونے لگاتا ہم جسمانی کمزوری باقی تھی۔ایک دن ہماری طبیعت خراب ہوئی اور ہمیں ہسپتا ل جانا پڑا۔وہاں کچھ وقت رہے۔ جب ہماری حالت بہتر ہوئی اور جانے لگے تو ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ کورونا ٹیسٹ بھی کر لیں تاکہ پتا چلے کہ بیماری چلی گئی ہے کہ نہیں۔ لیبارٹری ہسپتال کے بلڈنگ کے اندر تھی۔ہم ویل چیئر پروہاں پہنچے۔ استقبالیہ پر موجود نوجوان نے پوچھا ”شناختی کارڈ ہے؟“۔ شناختی کارڈ ہمارے پاس تھا لیکن اُس وقت مل نہیں رہا تھا۔ہم کبھی ایک اور کبھی دوسری جیب ٹٹولتے رہے،اس میں کچھ وقت لگا۔ہماری پریشانی دیدنی تھی۔یہ چند لمحات ہمارے لئے سال کے برابر تھے اور جو ذہنی کوفت ہوئی وہ کورونا کے دنوں کی اذیت سے کم نہ تھی۔خدا خدا کرکے شناختی کارڈمل گیا لیکن اگر یہ کہیں گم ہو چکا ہوتا تو لیبارٹری والے ہمارا ٹیسٹ نہ کرتے۔یہ قانون ہے اور قانون کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ ایک زمانہ تھا کہ اگر کوئی شخص کسی حادثے میں زخمی ہو جاتا تو اُسے پہلے پولیس سٹیشن لے جاتے اور ایف آئی آر درج کرتے اس کے بعد ڈاکٹر اس کا علاج کرتا۔ اس طرح وقت لگ جاتا مریض کا خون بہہ جاتا اور اس کی جان چلی جاتی لیکن قانون کا تقاضا یہی تھا۔ اچھا ہے اَب یہ قانون ہمارے صوبے میں بدل گیا ہے۔ زخمی شخص کو فوراًطبی امداد دی جاتی ہے ایف آئی آر درج ہو یا نہ ہو۔ کورونا ٹیسٹ کے لئے شناختی کارڈکی شرط اس قانون کی طرح ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے یعنی مریض کی جان چلی جارہی ہے اور قانون کو ایف آئی آر کی فکر ہے۔ہماری آبادی بائیس کروڑ افراد پر مشتمل ہے اس میں سب کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں۔ہم اُس وقت شناختی کارڈ بناتے ہیں جب ضرورت پڑتی ہے۔سکول میں داخلہ لینا ہو یا لین دین کرنی ہو تب کارڈبناتے ہیں۔لیکن کورونا بیماری پہلے سے بتا کر نہیں آتی۔ یہ نہیں پوچھتی کہ آپ کے پاس شناختی کارڈ ہے یا نہیں۔ اگر کورونا ٹیسٹ کے لئے شناختی کارڈ ضروری ہے تو ایک تعداد میں ہم وطن اس علاج سے محروم رہیں گے۔اس کے علاوہ یہاں کئی لاکھ مہاجرین ہیں۔ ان سب کا نہ ٹیسٹ ہوگا نہ اُن کو ویکسین لگے گی۔ کورونا ہی نے ہمیں سبق سکھایا ہے کہ کرہ ارض پر پونے آٹھ ارب انسانوں میں اگر ایک بھی بیمار ہو تو دنیا کی پوری آبادی چین کی نیند نہیں سو سکتی۔اس لئے وبا کا قلع قمع کرنے کے لئے سب انسانوں کی ویکسی نیشن ضروری ہے۔ کسی کے پاس شناختی کارڈ ہے تو اچھی بات، اگر نہ ہو تو کوئی اور شناختی دستاویز پیش کرے ورنہ اپنا نام اور پتا لکھ کر انجکشن لگائے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ہم نے اسٹر ا زینکا کا پہلا ڈوز لندن میں لگایا تھا۔ ہم سے کسی نے نہ شناختی کارڈ کا پوچھا نہ پاسپورٹ کا۔جن کے پاس شناختی کارڈ نہ ہو اُن کیلئے بھی کوئی طریقہ کار ہوناچاہئے تاکہ ویکسی نیشن کی سہولت سب کو مہیا ہو سکے۔