کبھی ہم بھی خوبصورت تھے

میں نے ساتھیوں سے پوچھاسردی ہے یا مجھے لگ رہی ہے۔وہ ہنس پڑے۔کیا آپ ہمیں نہیں دیکھ رہے کہ ہم نے ڈبل ڈبل جیکٹیں پہن رکھی ہیں۔پھر کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جنوری چل رہاہے۔ آپ نہیں جانتے کہ ان دنوں جنوری کا آخر ہے مگر سردی کی شدت ہے۔گویا انھوں نے تو سٹاف روم میں اپنے آپ کوبڑا استاد کہنے والے کی کلاس لے لی۔پھر جھاڑ جھنکار کی اس مشترکہ کاروائی میں مختلف مضامین کے ماہر پروفیسروں نے حصہ لیا۔میں تو اپنے سوال کرنے پر ہی پشیمان ہوا۔ وہ کہنے لگے سر جی بوڑھے ہو گئے آپ۔ ہم نے کہا ہم نے کون سا کہا کہ ہم جوان ہیں۔پھر اس گئی گذری عمر میں چونکہ جوانی نہیں رہتی سو ڈر رہتا ہے ہر بات کا ہر بیماری کا۔پھر اپنے وجود کی طرف غیر ضروری خیال چلا جاتا ہے کہ ”کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے“۔کیونکہ بچپن اور جوانی میں تو عام طور سے بندہ کو کسی بیماری کی طرف بھولے سے بھی دھیان نہیں رہتا۔ ہاں لوگوں کو بیمار ہوتے دیکھتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں۔مگر اپنے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا کہ ہم بھی ایک دن ایسے ہوجائیں گے۔ جوانی بھی کیا چیز ہے جب ہوتی ہے تو اس کی قدر نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کی اہمیت کی سمجھ ہی نہیں ہوتی۔مگر گذر جاتی ہے تو یاد آنے لگتا ہے او رآہستہ آہستہ خیال دل میں پختہ ہوتا ہے کہ جوانی بھی آخر کسی شئے کا نام ہے۔پھر موجودہ وقت میں اس وقت یا تو ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوگئے شوگر نے آن گھیرا یا معدہ کے اپھار کے ہاتھوں تنگ ہونے لگتے ہیں۔کیونکہ شباب کا عالم یہ ہوتا ہے کہ دوڑے تو دوڑتے چلے گئے اور چلے تو چلتے چلے گئے۔پھر اس وقت نہ تو ہانپنا کانپنا ہوتا تھا او رنہ ہی کہیں رک کے دم لینے کی ضرورت پیش آتی۔دوڑے اور راستے کے پتھروں کو فٹ بال کی طرح ٹھوکریں لگاتے گاتے گنگناتے ہوئے ہواؤں سے اٹھکیلیاں کرتے کہیں سے کہیں نکل جاتے۔اس وقت نہ تو گھر کی فکر تھی کہ پیچھے کوئی انتظار کرتاہوگا۔ ماں پریشان ہوگی کہ لڑکاگیا کہاں۔واہ وہ بھی کیا دن تھے جب ہنستے تو ہنستے چلے جاتے۔ مگر اب تو جیسے ہونٹوں پر کھیلنے والی ہنسی کہیں دور دیس کی وادیوں کے جنگلوں میں گم سی ہوگئی ہے۔اگرہنسی آئے بھی توہنسنے کو جی نہیں کرتا۔اگر ایسے میں کوئی کوشش کرکے ہنسنے پر مجبور  بھی کر دے تو ہم اسے صحیح معنوں میں مسیحا سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں یا ربڑی مدت کے بعد ہنسا ہوں۔آپ نے خوب ہنسایا۔ اس وقت ہنسنے کی اہمیت او رخوش باش رہنے کی ضرورت ستانے لگتی ہے۔آئینے میں دیکھتے تھے تو اپنے حسن کو دیکھتے رہ جاتے۔سوچتے قدرت نے حسن و خوبی کے کیسے کیسے شاہکار بنا رکھے ہیں۔مگر کیا معلوم کہ یہی آئینہ ہوگا اور ہم دیکھنے سے کترائیں گے شرمائیں گے او ردیکھیں تو آگے سے جلد ہٹ جانے کی کوشش کریں گے۔ اب ایبٹ آباد کے سلطان سکون کا یہ شعر دہراتے ہیں ”کسی کو عشق کے انجام سے ڈراناہو۔ تو اس کے سامنے میری مثال رکھ دینا“۔ عمر کا زوال ہم سے نہیں دیکھا جاتا ہر چند کہ حقیقت ہے۔مگرحقیقت بہت تلخ ہوتی ہے۔وہ یکہ توت کی قابلِ صد احترام مذہبی شخصیت تاج محمد مظہر صدیقی مرحوم کا شعر یاد آیا کہ ”اپنی پہچان ہوئی جبکہ ضعیفی آئی۔ ظلمتِ شب میں نظر آئی ہے اپنی صورت“۔سو اب ہر بات پہ خدشہ ہوتا ہے کہ مجھے فلاں بیماری نہ ہوگئی ہو۔کیونکہ بچپن اور لڑکپن میں تو بیماریاں چھو کر بھی نہیں گذری تھیں۔مگر اب پچپن میں تو ہر بیماری لگتا ہے جسم میں آن گھسی ہے۔یہ کھانسی کیوں ہو رہی ہے۔ یہ مجھے قریب و دور کی عینک کے ناک پر ہونے کے باوجود ٹھیک نظر کیوں نہیں آ رہا۔یہ دو قدم آہستہ آہستہ چلتا ہوں تو سانس کیوں تیز تیز چلنے لگتی ہے۔میں دوڑ کیوں نہیں سکتا۔ کیا زمانہ تھا کہ کوچی بازار چوک ناصر خان میں چار منزلہ گھر کی تیسری منزل پر دو دو سیڑھیاں پھلانگ کر پل جھل میں اوپرجا پہنچتے تھے۔ پھر نیچے اترے ہوئے فراٹے بھرتی ہوئی گاڑی کی طرح اور ہرنی جیسی چال کے ساتھ ایک سیڑھی چھوڑکر کمان سے نکلے تیر کی مانند سیدھا نیچے گلی میں گھر کے مین گیٹ تک پہنج جاتے۔مگر اب تو اور حال ہے۔گوڈوں گٹوں میں جیسے کسی نے سریا ٹھونک دیا ہو۔ گوڈے مڑتے ہیں توپورے جسم کو مروڑ دیتے نچوڑ دیتے ہیں۔بیٹھتے ہیں تواٹھا نہیں جاتا۔ اٹھ جاتے ہیں تو بیٹھا نہیں جاتا۔ہمہ وقت سہارے کی ضرورت پیش آتی ہے۔جی چاہتا ہے کھونٹی ساتھ گھمائیں۔مگر شرماتے ہیں کہ یار دوست کیاکہیں گے اس عمر میں کہ بال مکمل سفید نہیں ہوئے حضرت گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھتے ہیں تو ہڈیوں کی چٹاخ کی آواز بھی ساتھ فضا میں اٹھتی ہے۔بچپن میں عادت تھی کہ پیدل نہیں چلا جاتا تھا۔بہت سستی محسوس ہوتی تھی۔اس لئے جہاں جاناہوتا دوڑ دوڑ کر پیدل چلتے۔مگر اب اس ایج میں بھی پیدل نہیں چلا جاتا۔گلی کے باہر روٹیاں لینے بھی جانا ہو تو اپنی دو پایے کی چاند گاڑی پر سوار ہو کر اس لوہے کے گھوڑے کو اس کے پیٹ پر ایڑھی سے ٹھوک بجاتے ہیں سائرن والی گاڑی کی طرح پلک جھپکتے ہوئے اسی موٹر سائیکل پرواپس بھی آ جاتے ہیں۔ ”وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا“۔۔۔