مقام شکر ہے کہ یوکرائن کے معاملے میں برف پگھلی ہے جس سے یورپ میں جنگ کاخطرہ ٹلتا نظر آ رہا ہے کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے کو پیوٹن نے کمال ہوشیاری سے بروئے کار لا کر اس ضمن میں سفارتی محاذ پر کافی پیش رفت کی ہے۔ چین اور ایران کو اعتماد میں لے کر روس نے سفارتی محاذ پر اس معاملے میں امریکہ کو مات دی ہے۔وقت نے ثابت کیا ہے کہ ٹرمپ کی طرح بائڈن بھی اوسط ذہانت کے مالک ہیں۔ افسوس کہ امریکہ میں آج دور اندیش سیاسی قیادت کا فقدان ہے آج وہاں کوئی روزویلٹ یا آ ئزن ہاور کی سطح کا صدر موجود نہیں ہے۔ نکتیا خروشیف کے ایوان اقتدار سے چلے جانے کے بعد ایک لمبے عرصے تک سوویت یونین کو جو سیاسی قیادت نصیب ہوئی تھی وہ اس سیاسی قیادت سے کافی کمزور تھی کہ جو لینن سے لے کر خروشیف تک ماسکو میں بر سر اقتدار تھی اس پر طرہ یہ کہ اس قیادت نے سوویت یونین کو دنیا بھرمیں غیر ضروری تنازعات میں الجھا دیااور وہ ملک کی اقتصادی اور عسکری قوت میں توازن نہ رکھ سکی جس کی وجہ سے روس کافی کمزور ھو گیا یہ وہ وقت تھا کہ جب امریکہ کی سی آئی اے کی کوششوں کی وجہ سے سوویت یونین کے ٹکڑے ہو گئے ان دنوں پیوٹن سویٹ یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سربراہ تھے اور یہ تمام واقعات ان کی آنکھوں کے سامنے ہوئے۔ روس میں پیوٹن کے ہم خیالوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے کہ جو امریکہ سے اس بات پر سخت نالاں ہے کہ اس نے سوویت یونین کے حصے بخرے کیے یہ لوگ لوگ ان زخموں کو چاٹ رہے ہیں ہیں کہ جو امریکہ کے ہاتھوں سوویت یونین کو لگے ہیں اور ان کا یہ مشن ہے کہ نہ صرف سوویت یونین کو اسی انتظامی صورت میں بحال کیا جائے کہ جس میں وہ امریکی سازشوں کی وجہ سے ٹوٹنے سے پہلے موجود تھا اور ان کے ہم خیال لوگ امریکہ سے اس واقعہ کا بدلہ بھی لینا چاہتے ہیں۔جہاں تک ملکی حالات کا تعلق ہے تو یہاں پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان آنکھ مچولی ابھی جاری ہے اور ایک طرف اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ حکومت چند دنوں کی مہمان ہے تو دوسری طر ف حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مدت پوری کریگی اور اپوزیشن کو 2023الیکشن کا انتظار کرنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کی اکثریت احتجاج اور ہڑتالوں کی سیاست سے لاتعلق ہوتی جارہی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل حل ہوں جو کہ احتجاجی سیاست سے حل ہوتے نظر نہیں آتے۔اب وقت آگیا ہے کہ اس بات کو ذہن میں بٹھایا جائے کہ جس کو عوام نے موقع دیا ہے اسے مدت پورا کرنے دیا جائے اور پھر عوام کے پاس جاکر فیصلہ ہوجائے گا کہ وہ کس کو حکومت حوالے کرتے ہیں۔آج اگر ایک کی حکومت ہے تو کل دوسری پارٹی کی حکومت ہوگی اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کا ا س میں بھلا ہے کہ وہ عوامی مینڈٰیٹ کا احترام کرتے ہوئے کسی بھی جماعت کو پوری مدت کیلئے حکومت کرنے کا موقع دے
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سابقہ فاٹا زمینی حقائق کے تناظر میں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ