قومی معیشت نے پچھلے سال 5.37فیصد کی شرح سے ترقی کی۔ زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا۔ گردشی قرضوں میں نمایاں کمی ہوئی جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) خسارہ بھی معمولی رہا اور ملک معاشی استحکام یعنی درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے تاہم اِس مقصد میں کامیابی کے لئے چند ”مشکل فیصلے“ کئے گئے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قومی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے۔ ملکی معیشت میں بہتری کے حوالے سے جو اعداد و شمار بیان کئے جاتے ہیں وہ بظاہر خوش کن اور حوصلہ افزأ ہیں اور اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حکومت اقتصادی ترقی کے حوالے سے صحیح سمت سفر کر رہی ہے جبکہ خوشحالی اور استحکام زیادہ دور نہیں۔ عنقریب قومی ترقی کی راہیں کھلیں گی اور عوام کی اجیرن بنی زندگی میں خوشگوار انقلاب آ جائے گا لیکن وہ معاشی صورتِ حال جس کا پوری قوم کو سامنا ہے اُس نے عام آدمی کو مختلف مسائل میں مبتلا کر رکھا ہے۔ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ افراطِ زر‘ ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ اور خراب معاشی حالات کے باعث زندگی میں آسانی کے اسباب محدود ہو چکے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی و گیس کے نرخوں میں آئے روز اضافے کی وجہ سے گھریلو اخراجات میں توازن رکھنا ممکن نہیں رہا۔ ایک عام آدمی کی نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو اُس کے لئے ہر طلوع ہونے والا سورج کسی خوشی و مسرت کا مژدہ سنانے کی بجائے پریشانی کی خبر لا رہا ہے اور ان پریشان کن حالات میں ملک کی معیشت میں بہتری اور شرح ِنمو میں اضافے کی بات عوام کیلئے کچھ زیادہ اطمینان کاباعث نہیں کیونکہ اگر ملک کی معیشت واقعی بہتری کی طرف مائل ہے تو پھر اس کے اچھے (مثبت) اثرات عام آدمی تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے؟حکومت کی جانب سے معیشت کی ’ری بیسنگ‘ یعنی شرح نمو کی جانچ کے لئے ریفرنس کے طور پر استعمال ہونے والا سال دوہزارپانچ چھ سے تبدیل کر کے دوہزارپندرہ سولہ کر دیا گیا ہے جس کے بعد شرحِ نمو وزارت ِمنصوبہ بندی کی جانب سے 5.37 فیصد بتائی جا رہی ہے۔ یہ تکنیکی ردوبدل دوسری مرتبہ ہوا ہے۔ سال دوہزاربیس اکیس میں بھی معیشت کی شرح نمو کو تبدیل کیا گیا جس کی وجہ سے دوہزاربیس کے سالانہ بجٹ میں اس کا ہدف دواعشاریہ تین فیصد رکھا گیا اور اِس کے بعد اسے تین اعشاریہ نو فیصد کر دیا گیا تھا۔ وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق نئی بیس لائن کے بعد پاکستان کی مجموعی معاشی پیداوار کا حجم 346.76 ارب ڈالر ہو گیا ہے جبکہ فی کس (اوسطاً ہر پاکستانی کی) سالانہ آمدن 1666ڈالر ہو گئی ہے تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ قومی مجموعی (خام) پیداوار (جی ڈی پی) کی اچھی شرح نمو اور بہتر فی کس آمدن کے باوجود آخر کیا سبب ہے کہ پاکستان میں عام عوام کی معاشی پریشانیاں کم نہیں ہو رہیں اور شرح نمو میں اضافے کا فائدہ عام آدمی کو کیوں نہیں پہنچ رہا جبکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں ’اچھی شرح نمو‘ کیا کردار ادا کر رہی ہے؟ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں مہنگائی کی سالانہ شرح میں بارہ اعشاریہ تین فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ دسمبر دوہزاراکیس میں مہنگائی کی شرح گزشتہ سال اسی ماہ کے مقابلے میں بارہ اعشاریہ تین فیصد بڑھی تھی۔ حالیہ اقتصادی سروے رپورٹ میں بیروزگاری کی شرح کے اعداد و شمار نہیں دیئے گئے تاہم یہ ضرور کہا گیا تھا کہ ملک میں بیروزگاری بڑھی ہے جبکہ عالمی بینک کے پاس موجود جون دوہزاربیس تک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح چار اعشاریہ پینسٹھ فیصد ہے۔معیشت کی ’ری بیسنگ اہم پیشرفت ہے کیونکہ مارکیٹ میں نئے سیکٹر داخل ہوتے ہیں تو کچھ سیکٹرز (شعبہ جات) کی تعریف وقت کے ساتھ تبدیل بھی ہو جاتی ہے۔ عالمی سطح پر اِس قسم کا اقدام ایک معمول کا عمل ہے۔ عموماً ایسا ہر پانچ سال سے دس سال بعد کیا جاتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ ملک کے معاشی اشاریئے خاص طور پر قیمتوں کے انڈیکس اپ ڈیٹ ہوں لیکن اس سے برسرزمین حالات میں تبدیلی نہیں آتی بلکہ صرف حکومت کو معیشت بہتر کرنے کیلئے منصوبہ بندی میں مدد ملتی ہے۔ حزب اقتدار و حزب ِاختلاف کے اراکین یکساں تسلیم کرتے ہیں کہ قومی معاشی صورتحال گھمبیر ہے جبکہ ’ری بیسنگ‘ کے باعث اگر کچھ اعدادوشمار اچھے سامنے آئے ہیں تو اِس پر مسرت کا اظہار کرنے کی بجائے عام آدمی (ہم عوام) کے نکتہئ نظر سے بھی معیشت کا جائزہ لیں‘ جن کیلئے مہنگائی کی شرح میں کمی لائے بغیر معیشت کو سنبھالنے کی ہر کوشش ادھوری ہے۔