اندھیارے او رگھپ اندھیرے 

رات کا وقت ہے۔لائٹ کا کیا ہے۔ وہ تو کسی بھی وقت جا سکتی ہے۔ پھر کتنے ٹائم کے لئے گئی اس کا دورانیہ مختص نہیں ہے۔گھنٹہ بھر کے بعد اس نے آناہوتاہے۔لیکن اگر نہ آئے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔بلکہ کیا کرلیں گے۔ بجلی کے خلاف نہ تو اب سڑکوں پر جلوس نکلتے ہیں اور نہ ہی کوئی احتجاج برپا ہوتا ہے۔ عوام بے حس ہوچکے ہیں۔عوام کو معلوم ہے کہ بجلی جانے کے خلاف چیخنے اور سڑک پر دھرنا مار کربیٹھنے شور مچانے سے اگر کچھ ہونا ہوتا تو عرصہ تیس سال سے بجلی کا جاری بحران کب کاختم ہو چکا ہوتا۔ یہ اب تک جو ختم نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ آئندہ بھی کم ازکم دس سال یہ آزار اور بھی رستے کا بھاری پتھر رہے گا۔ لائٹ  کاکیا ہے رہے رہے نہ رہے نہ رہے۔اچانک چلی جاتی ہے او ربھولے سے آ جاتی ہے۔مگر جب ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے تو پھر سے پورا علاقہ اور ٹاؤن اور محلے تاریکی میں ڈوب جاتے ہیں۔ جو لوگ متاثر ہوتے ہیں ان کے تو کان پر جوں تک نے رینگنا بھی چھوڑ دیا ہے۔پھر نہ توبجلی کے حکام کا دل نرم ہوتا ہے۔گرمی تھی چلو ان کاکہنا تھا بجلی کا استعمال زیادہ ہے۔مگر اب جو سردی آئی ہے تو بجلی کی ویسے کی ویسے لوڈ شیڈنگ کچھ زیادہ ہونے لگی ہے۔سو پوچھنا یہ ہے کہ اب کیا مسئلہ ہے۔جواب ملتا ہے کہ بجلی کہیں کسی مقام پر خراب ہے۔ اس کا پتا نہیں چل رہا۔جو ں ہی بجلی کے خراب ہونے کا مقام معلوم ہو جائے گا بجلی کی درستی کے بعد بجلی کی روانی ٹھیک ہوجائے تو آ جائے گی۔یہ آنکھ مچولی او رچوہے بلی کاکھیل جاری رہتا ہے۔اچانک بجلی گئی تو رات کے وقت کمرے میں اندھیر نگری او رچوپٹ راجہ والی بات ہوگئی۔ مگر کمرے میں موجود جتنے بھی گھر والے تھے ان کے موبائل ایک ایک کرکے روشن ہوگئے۔پھر کمرہ روشنیوں سے نہا گیا۔ کہا ں معلوم ہورہاتھا کہ بجلی چلی گئی ہے۔بجلی گئی تو کیا ہوا کمرہ میں روشنی اسی طرح تھی۔ مگر سوال ہے کہ یہ روشنی کتنی دیر اور رہے گی۔گھنٹہ آدھا اور اس سے کچھ زیادہ۔مگر جب موبائل بیٹریاں مدھم پڑجائیں گی تو پھر سے اندھیرے کا راج کاہوگا۔ بجلی آتی ہے تو پھر جاتی ہے اور چلی جائے تو قسمت ہی سے واپس آئے۔رات کے پونے ایک بجے اچانک بارش شروع ہوگئی۔چھت کے منگ پر پڑی ہوئی پلاسٹک کی پینا فلیکس کی شیٹ پر ٹپ ٹپ قطرے گرنے شروع ہوئے۔ پہلے توگمان گذرا کہ بارش ہے۔پھر گمان کی حد سے ہم خود گذر گئے۔ کیونکہ تیزبارش نے گویا جلترنگ بجانا شروع کردیا۔ رات کے اس سمے جب چاروں اور خاموشی کا عالم ہے تو بارش کے قطروں کی آواز کتنامزا دیتی ہے۔مگر اس وقت کہ بجلی بھی تو ہو۔اس وقت بجلی بھی اچانک چلی جائے تو میں کہوں یہ مزا کبھی دوبالاہوجاتا ہے۔رات کا گھپ اندھیرا اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔سب سو رہے ہواو رایسے میں رات کی سیاہی دامن دل پر روشنی بن کر بکھر رہی ہو تو ناصر کاظمی کا شعر یاد آتاہے ”سو گئے لوگ اس حویلی کے۔ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی“۔ دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی۔ کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی“ تازہ ہوا بھی بارش کے سنگ سنگ ہو تو ایسے میں ماضی کی حسین یادیں سینے میں آگ لگاجائیں او ران پر برکھا رت کاپانی تیل چھڑکنے کے برابر ہو جائے تو کس کو اس وقت رات ڈھلے نیند آسکتی ہے۔سارا دن کے شور شرابے اور بچوں کی ہا ہو کا تماشا گاڑیوں ٹرکو ں کے ہارن اور دھول مٹی گرد و غبار کے اس وقت بیٹھ جانے سے موسم میں بارش کی رُت کی دل کشی بڑھ جاتی ہے۔اس تہنائی کو انجوائے کرنا ازخود ایک الگ سرور دیتاہے۔بارشوں کے اس موسم میں کہ سردی میں روز اضافہ ہو رہاہو اور او ربچوں کی سکول سے چھٹیوں کی خبروں کی پھلجڑیاں روز چار چار پھوٹ رہی ہوں اور پھر کورونا کارن ہسپتال کے بیڈ پر جسم تڑپتے ہوں تو اس خیال سے بارش کا سارا مزا کرکرا ہو جاتاہے۔بچو ں کا کیا ہے جب بھی ہیڈ لائن میں دیکھتے ہیں کہ پھر سے سکول بند کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔سرکاری لوگوں کو خود سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کیاکریں اور کیا نہ کریں۔ کسی کو فون کر کے پوچھو کہ چھٹیوں کی یہ خبر درست ہے یاغلط ہے تو جواب ملتا ہے کہ ابھی کنفرم نہیں ہوا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ بجلی نہیں تو یہ کہیں خراب ہے اور فالٹ تلاش کیا جارہا ہے۔یعنی کہ روز فالٹ اور روز اس کے مقام کے تعین کے لئے ٹیمیں روانہ ہو جاتی ہیں۔مگر خرابی ہے کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتی۔