پاکستان کیلئے موزوں سیاسی نظام کونسا ہے اِس حوالے سے جاری بحث میں ترکی کی مثال بھی دی جا رہی ہے جہاں پارلیمانی اور صدارتی ملے جلے نظام کا تجربہ جاری ہے۔ ذہن نشین رہے کہ 1924میں 29اکتوبر کو ’ری پبلک آف ترکی‘ بنا جس کے صدر مصطفیٰ کمال اتا ترک تھے پھر اُنیس سو بیاسی میں آئینی ریفرنڈم ہوا اور ملک نیا آئین دیا گیا۔ دوہزارسترہ میں کی گئیں آئینی ترامیم کے بعد وزیرِ اعظم کا عہدہ ختم کر دیا گیا اور صدر کو ہی ریاست اور حکومت کا سربراہ بنا دیا گیا اور اس طرح ترکی ایک پارلیمانی سے صدارتی نظام والی ریاست بن گیا۔پاکستان میں بھی صدارتی نظام حکومت رائج کرنے کا مطالبہ مختلف سوشل میڈیا فورمزایک مرتبہ پھر کیا جا رہا ہے تو موزوں سیاسی نظام کونسا ہونا چاہئے اِس سوال کے بعد دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کیا صدراتی نظام اختیار کرنا ماضی کی غلطی دہرانے کے مترادف ہوگا؟ عمومی روش ہے کہ جب بھی ملک میں سیاسی حکومت کسی بحران کی زد میں آتی ہے تو ایک خاص طبقہ اس کے لئے قصوروار پارلیمانی نظام حکومت اور مافیاز کو قرار دیتا ہے۔ دوسری طرف منتخب نمائندے پارلیمانی نظام کی حمایت میں سامنے آ جاتے ہیں اور یوں یہ بحث الجھ کر کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو جاتی ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان کئی مرتبہ اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن ”موجودہ نظام کی وجہ سے وہ کر نہیں پاتے۔“ پاکستان میں صدارتی نظام لانے کی بحث بہت پرانی ہے جو ملک بننے کے چند سال بعد شروع ہو گئی تھی۔ پہلے آئین کے بعد ایوب خان نے ملک میں صدارتی نظام متعارف کروایا تو اس سے پہلے انہوں نے ایک آئینی کمیشن بنایا اور اس کمیشن میں پارلیمانی نظام کا بہت مضبوط تنقیدی جائزہ موجود ہے‘ جس میں صدارتی نظام کا جواز پیش کیا گیا۔ جہاں تک موجودہ پارلیمانی نظام کی بات ہے تو موجودہ دور کے دو مسائل ہیں۔ ایک تو یہ کہ حکومت کے پاس ایسی واضح اکثریت نہیں جس کی بنیاد پر وہ اصلاحات کر سکے کیونکہ ایسا کرنے کیلئے پارلیمان سے آئین سازی کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر کوئی ملک میں نظام ہو جس میں فرد واحد کو اختیارات حاصل ہوں تو اصلاحات زیادہ تیزی سے عملاً ممکن ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کے قومی فیصلہ سازوں کی ایک نظر چین کے سیاسی نظام پر بھی ہے جو انتہائی مرکزیت پر مبنی سیاسی ماڈل ہے۔ملک کی موجودہ اقتصادی پالیسیوں میں مسائل نظر آ رہے ہیں ان کے متعلق بھی یہی خیال ہے کہ اگر ان پالیسیوں کو چلانا ہے تو مضبوط اور فوری فیصلے کرنے کا اختیار رکھنے والی حکومت کی ضرورت ہے اور پارلیمانی نظام میں یہ خوبیاں نہیں ہوتیں۔ اِس پورے منظرنامے میں کسی نئے نظام کے متعلق بحث یا کوشش میں حرج نہیں۔ ہر نظام پر بحث اور تحقیق ہونی چاہئے کہ آیا ہمیں اُس کی ضرورت ہے بھی یا نہیں اور اگر ہے تو کیوں ہے اور اگر نہیں تو کیوں نہیں۔ جہاں تک صدارتی نظام کا تعلق ہے اس میں کوئی برائی نہیں کہ اس نظام یا نئے نظاموں کے بارے سوچا جائے لیکن جو سب سے زیادہ سوچنے کی چیزیں ہیں وہ یہ ہیں کہ پاکستان نے پارلیمانی جمہوریت کو پوری طرح چلنے کا موقع نہیں دیا لیکن اِسے ناقابل عمل سمجھا جانے لگا ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ ہمارے آئین میں ایسی کئی ترامیم کی گئیں تاکہ پارلیمان کی بالادستی کم کی جائے جیسا کہ آئین کی شق اٹھاون ٹو بی‘ جس کے تحت صدر کے پاس اختیار تھا کہ وہ اگر اپنی عقل کے مطابق سمجھتا ہے کہ اسمبلیوں کی کارکردگی اچھی نہیں تو وہ انہیں تحلیل کر سکتا تھا اور اِس آئینی اختیار کی وجہ سے پوری ایک دہائی ضائع ہوئی اور چار حکومتیں اس آئینی شق کا شکار ہوئیں۔ پاکستان میں مکمل صدارتی نظام ایوب خان نے نافذ کیا تھا جو 1962ء سے 1969ء کے دوران رہا۔ بنیادی طور پر ہمارے ہاں سینٹرلائزیشن آف پاور (طاقت کی مرکزیت) کی بات ہوتی ہے لیکن لوگ ڈسپرسل آف پاور (طاقت کو بانٹنے) سے گھبراتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ اس سے انتہائی آمرانہ نظام بن تو سکتا ہے لیکن ایسے نظام کی پاکستان کے سیاسی تنوع (اظہار رائے کی آزادی‘ سوشل میڈیا‘ انٹرنیٹ وغیرہ) کی موجودگی میں اپنی جگہ بنانا بہت ہی مشکل ہو جائے گا۔ صدراتی نظام سے سیاسی اختلافات کم ہونے کی بجائے بڑھ جائیں گے اور امکان یہ بھی ہے جن خرابیوں کو دور کرنے کے لئے صدراتی نظام نافذ کیا جائے اُن کا علاج بھی نہ ہو ملکی معیشت و سیاسی نظام کو مزید بیماریاں لاحق ہو جائیں! آخر ایساحکمران کہاں سے آئے گا‘ جو خوداحتسابی کی اُس انتہا پر ہو کہ جہاں قومی وسائل بطور امانت اور عوام کے حقوق کی بطور فرض ادائیگی اُس کے پیش نظر رہیں۔بہتری اِسی میں ہے کہ موجودہ یعنی پارلیمانی نظام کو خاطرخواہ مضبوط بنایا جائے جس کی بنیاد شفاف انتخابی عمل پر ہے اور جب تک انتخابی نظام میں خامیاں (سقم) موجود رہیں گے‘ اُس وقت تک کوئی بھی پرانا یا نیا سیاسی نظام ملک و قوم کی توقعات پر پورا نہیں اُتر پائے گا۔