یوکرین روس تنازعہ کہاں جارہا ہے

امریکہ اور روس کے درمیان یوکرین بحران پر بات چیت میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی مگر دونوں بات چیت جاری رکھنے پر متفق ہیں۔اس حال میں کہ روس نے یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ کے قریب فوجی بمعہ ساز وسامان جمع کررکھے ہیں اور بحران کے حل کے آثار دکھائی نہیں دے رہے، امریکہ نے روس پر یوکرین پر حملہ کرنے کے بہانے کی تلاش میں اشتعال انگیز کاروائیوں اور جعلی آپریشن کی سازش کے الزامات لگائے ہیں تاہم روس نے انہیں مسترد کر دیا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے پچھلے دنوں کہا ہے کہ بظاہر روس یوکرین کے خلاف چھوٹے پیمانے پر فوجی کاروائی کرسکتا ہے مگر روس کی جانب سے ایسے کسی بھی اقدام پر اسے مالی پابندیوں اور سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ابھی واضح نہیں کہ روس کیا واقعی یوکرین پر حملہ کرے گا اور ایسا کرنے کی صورت میں امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین کا ساتھ دیں گے یا نہیں مگر صورت حال یہ ہے کہ اب ایک طرف روس ہے اور دوسری طرف امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی اور فریقین کے درمیان کشیدگی میں کمی کا فی الحال فوری امکان دکھائی نہیں دے رہا۔امریکہ اور اس کے اتحادی روس سے یوکرین سرحد پر جمع افواج کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ روس کے مطابق اس کا یوکرین پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں مگر وہ تاحال اپنی افواج کی واپسی کیلئے تیار نہیں۔ اس کے بجائے وہ امریکہ اور یورپی ممالک سے چند تحریری یقین دہانیاں حاصل کرنے پر زور دے رہا ہے کہ نیٹو مشرقی یورپ میں توسیع نہ کرنے، یوکرین کو نیٹو میں شامل نہ کرنے، سابقہ سوویت یونین میں شامل ممالک سے اپنی فوج نکالنے اور یوکرائن یا کسی بھی سابق سوویت ریاست میں اپنی فوج یا عسکری آلات نصب نہ کرنے کی یقین دہانیاں دے مگر امریکہ اور نیٹو نے ابھی تک روس کو یہ یقین دہانیاں نہیں دی ہیں۔فریقین ابھی تک مذاکرات میں اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کیلئے آمادہ نہیں ہوئے جس کی وجہ سے بات چیت میں پیش رفت نہیں ہو رہی اور تعطل آیا ہوا ہے۔جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں یورپی یونین کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا۔ یورپی یونین کی سبکی کیلئے روس نے بہ اصرار روس امریکی مذاکرات کی جگہ پہلے جنیوا سے برسلز منتقل کی تو وہاں بھی یورپی کونسل کی بجائے نیٹو کے ہیڈکوارٹر میں پہلا دور منعقد ہوا اور پھر اگلا دور ویانا میں تنظیم برائے سیکورٹی و تعاون کے دفتر میں ہوا۔روس یورپی یونین کو اس بحران سے باہر رکھنا چاہتا ہے مگر یورپی یونین اس پر راضی نہیں۔ وہ اس بحران کے سفارتی حل میں عملی حصہ لینے کا ارادہ رکھتا ہے اور کمزور نہیں دکھنا چاہتا۔ جرمنی کی وزیر خارجہ امریکہ اور روس پر زور دے رہی ہیں کہ وہ یورپی یونین کو مذاکرات میں شامل کریں۔ یورپی یوونین یوکرین بحران کو اپنی ساکھ کی بحالی اور اتحاد مضبوط کرنے کیلئے ایک آزمائش اور موقع سمجھ رہا ہے۔ یورپی ممالک کی کوشش ہے کہ وہ یوکرین کی مدد اور روس کو روکنے کیلئے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیں۔یوکرین کی چار مشرقی یورپی ممالک ہنگری، پولینڈ، سلواکیہ اور رومانیہ کے ساتھ بائیس سو کلومیٹر مشترکہ سرحد ہے اور وہ یورپی یونین میں شمولیت کی درخواست دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یورپی یونین ممالک سمجھتے ہیں یوکرین پرجنگ مسلط کرنے سے خطہ پر منفی اثرات پڑیں گے اس وجہ سے وہ مسئلے کا جلد سفارتی حل چاہتا ہے۔امریکی صدر نے پچھلے دنوں جب بیان دیا کہ روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف کسی چھوٹے فوجی اقدام کی صورت میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مشترکہ ردعمل میں مشکلات ہوسکتی ہیں تو اس کے بعد انتھونی بلنکن نے یوکرین کو یقین دلایا کہ امریکہ اس کا ساتھ دے گا۔ دوسری طرف روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا روس کو یوکرین پر حملہ کرنے کا کوئی منصوبہ ہے نہ ارادہ۔ روس کی اپنی پریشانیاں ہیں جو ایجاد شدہ خطروں پر نہیں بلکہ حقیقی خطرات پر مبنی ہیں جیسے یوکرین میں ہتھیار جھونکنا اور سینکڑوں مغربی فوجی تربیت کاروں کا بھیجنا۔ دونوں کے مطابق اگر ضرورت پڑی تو روس اور امریکی صدور دوبارہ مسئلے کے حل کیلئے مل سکتے ہیں۔بلنکن نے زور دے کر کہا کہ کسی بھی ملک کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کی پالیسیوں کو ڈکٹیٹ کرے یا بتائے کہ وہ کس کے ساتھ تعلق رکھے یا نہ رکھے۔ روس کو کوئی حق نہیں کہ وہ یوکرین پر اپنی مرضی مسلط کرے مگر سوال یہ ہے کہ کیا خود امریکہ اس عظیم اصول کی پابندی کرتا ہے؟ امریکہ خود دنیا بھر میں دوسرے ممالک کو مجبور کرنے کیلئے دھونس، فوجی مداخلتوں اور پابندیوں سے کام لیتا رہا ہے، دوسرے اقوام کی خودمختاری اور حقِ حکومت سازی کا احترام کرنے کے بجائے ان پر اپنی حمایت یافتہ حکومتیں مسلط کرتا رہا ہے اور انہیں اپنا ساتھ دینے یا دشمنوں کا ساتھی قرار دینے کی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔ کیا امریکہ میکسیکو کو روسی یا چینی افواج اپنے ہاں تعینات کرنے کی اجازت دے گا۔بلاشبہ یوکرین کو اپنی مرضی سے اپنی خارجہ پالیسی بنانے اور اپنی علاقائی خودمختاری کے تحفظ کا حق حاصل ہے مگر بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں میں یوکرین کے مستقبل کے بارے میں روس کو روکنے کا حوصلہ اور ارادہ نہیں ہے کیونکہ یہ سب ممالک اپنی افواج وہاں لڑنے کیلئے بھیجنے کو تیار نہیں ہیں۔ روس کو اگرچہ یہ یقین دہانی نہیں دی گئی کہ نیٹو یوکرین کو بلاک میں شامل نہیں کرے گا مگر ایسا کوئی فوری امکان ہے بھی نہیں کیوں کہ ایسا کرنے کے بعد امریکہ اور یورپ کو یوکرین کا دفاع کرنا ہوگا۔جب تک روس جنگ کی دھمکی دیتا ہے وہ یوکرین کو نیٹو سے باہر رکھ سکتا ہے۔ اس حال میں کہ کوئی فریق اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کیلئے آمادہ نہیں بہتر یہ ہوگا کہ کوئی ایسا سفارتی معاہدہ ہوجائے جس میں روس، یوکرین، امریکہ اور یورپی یونین کیلئے توہین کا کوئی پہلو نہ ہو مگر جنگ نہ ہونے پائے۔ جیسے کسی معینہ عرصے تک یوکرین کے فوجی اتحاد اور یورپی یونین میں شمولیت ملتوی کی جائے اور پھر روس کچھ عرصے بعد یوکرین سرحد سے فوج ہٹالے۔