وقت برق رفتاری سے آ گے بڑھ رہاہے موجودہ حکومت کی مدت اقتدار میں باقی ماندہ دن کم ہوتے جا رہے ہیں اس ملک کے عام آدمی کو یہ سوال پریشان کر رہا ہے کہ کیا مستقبل قریب میں اس ملک کے عام شہری کی مشکلات ختم ہوجائیں گی؟اس جملہ معترضہ کے بعد ذکر کرتے چلیں کہ اس ملک کے زیادہ تر مسائل کا تعلق معیشت کے غیر دستاویزی ہونے سے ہے۔ لاکھ کوششوں کے باوجود ابھی تک ہم معیشت دستاویزی نہیں کر سکے کہ جس کے بنا ملک میں منصفانہ ٹیکسیشن سسٹم کے نفاذ کودیوانے کا خواب ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کام جس قدر جلد ہو جائے اس قدر ہی اس میں ملک کا فائدہ ہے۔دوسری طرف ملکی منظر نامے پر اہم واقعہ شہزاد اکبر کا مستعفی ہونا ہے، ویسے کہا جا رہا ہے کہ شاید ان کی جو ذمہ داری تھی اس کو وہ نبھانے میں کامیاب نہ رہے اس لئے ان کا جانا ٹھہر گیا۔ یہ ان ہی کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس بات کو یقینی بناتے کہ کرپشن کے مقدمات اتنے زیادہ نہ لٹکتے جو حکومت کی بد نامی کا موجب بنے۔جو خاصیت البتہ حکومت کے حق میں جاتی ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان کا اپنا دامن مالی کرپشن کی آلودگی سے پاک و صاف ہے۔لگتا ہے عالمی برداری تب جاگے گی جب کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی میں بھارت کامیاب ہوجائے، تازہ ترین حالات تو یہ ہیں کہ عام آدمی کیلئے تو کشمیر میں زندگی یوں ہی تنگ کی گئی تھی اب ان صحافیوں کو بھی ٹارچر کرنا شروع کر دیا گیا ہے جو کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو بے نقاب کرتے ہیں۔ایک بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کئی سالوں سے صحافیوں کو مختلف دھمکیوں اور مشکلات کا سامنا تو عرصہ دراز سے ہے مگر2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے کشمیری صحافیوں کے لیے مشکلات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے آزادی کی تحریک میں جو تیزی آئی ہے اس کے خلاف بھارتی فوج کی مسلح کاروائیاں جاری ہیں اور ان کاروائیوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو زبردستی بھارت کے سرکاری موقف کی حمایت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ورنہ ان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اخبارات کو بند کردیا جاتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برداری کشمیر میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر بھر پور رد عمل دکھاتے ہوئے بھارت پر اسی طرح پابندیاں عائد کرے جیسی پابندیاں کسی وقت جنوبی افریقہ میں نسل پرست حکومت پرعائد کی گئی تھیں۔ کہتے ہیں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، ہندو انتہا پسند مودی حکومت بھی انسانی حقوق کے اداروں کی تنقید کو خاطر میں لانے والی نہیں، جب تک بین الاقوامی برداری اور خاص طور پر امریکہ اور یورپی ممالک مودی حکومت کو نسل پرست حکومت قرار دے کر راست اقدامات کرے۔ کیونکہ اب مسلمانوں کی منظم نسل کشی نہ صرف کشمیر میں جاری ہے بلکہ اس کا دائرہ اب پورے بھارت تک پھیلایاگیا ہے اور پورے ملک میں مسلمانوں کو امتیازی سلو ک کا سامنا ہے۔ان کو گائے کے تحفظ کی تنظیمیں تشدد کا نشانہ بنا کر جان سے مارڈالنے میں مصروف ہیں اور ملک کے کئی حصو ں میں تو نماز جمعہ میں بھی رکاٹیں ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور مودی حکومت کی سرپرستی میں ہندو انتہا پسندوں کے اس حد تک پہنچنے میں بین الاقوامی برداری کی خاموشی کا اہم کردار ہے جو مودی حکومت کے کرتوتوں کو نظر اندا زکرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔جس خمیازہ بھارت میں مقیم مسلمانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور ان کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سابقہ فاٹا زمینی حقائق کے تناظر میں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ