بااختیار بلدیاتی حکومتیں 

کراچی (سندھ) سے آمدہ اطلاعات کے مطابق صوبائی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کی حکومت نے بالآخر متنازعہ بلدیاتی قانون کے حوالے سے مذاکرات کا عمل شروع کر دیا ہے اور اِس سلسلے میں حکمران جماعت کے ایک وفد نے پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے صدر دفتر کا دورہ کیا ہے۔ خوش آئند ہے کہ سیاسی جماعتیں اختلافات پارلیمان کے اندر یا باہر بات چیت کے ذریعے حل کریں اور اگر ایسا نہیں کرتیں تو ماضی کی غلطیوں میں پوشیدہ اسباق میں اضافہ کیا جائے گا۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پی ایس پی کے رہنما مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے پی پی پی کو قانون کے حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا‘ جس پر حزب اختلاف کی قریب سبھی جماعتیں اعتراضات رکھتی ہیں۔ اپوزیشن کے بنیادی خدشات میں شامل ہے کہ ضلعی اور میٹروپولیٹن انتظامیہ کی صورت میں بلدیاتی نمائندوں سے اختیارات لے لئے گئے ہیں۔ ان تحفظات میں سچائی ہے کیونکہ اختیارات اور وسائل جو کہ مقامی حکومت کا حق ہے اور یہ اِن کا استحقاق بھی ہونا چاہئے لیکن اگر نہیں ہوں گے تو پھر بلدیاتی نمائندوں کی موجودگی اور حیثیت کیا معنی رکھے گی۔ حیرت اِس بات ہے کہ پیپلزپارٹی بلدیاتی قانون سے چھیڑچھاڑ کر رہی جبکہ یہی جماعت اٹھارہویں آئینی ترمیم کی وکالت میں پیش پیش تھی اور اِس کی کوششوں سے ہی مبینہ صوبائی خودمختاری ممکن ہوئی ہے جبکہ پیپلزپارٹی کی قیادت کے بیانات سے عیاں ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کے وجود کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن اُنہیں خاطرخواہ اختیارات نہیں دینا چاہتے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر سے جمہوریت پسندوں کو مایوس کیا ہے۔ کراچی ایک کثیرجہتی امتزاج رکھتا ہے‘ جس پر پورے پاکستان کو فخر کرنا چاہئے کہ یہ ملک کا سب سے زیادہ متنوع آبادی رکھنے والا بڑا شہر ہے۔ ایسے شہر پر حکومت کرنے کیلئے‘ مقامی فیصلہ سازی کو نسبتاً زیادہ اختیارات دیئے جانے ضروری ہیں اور اگر ایسا نہیں ہوگا تو کراچی کے مسائل بھی حل نہیں ہوں گے۔ حالیہ پیشرفت (مذاکرات پر آمادگی) سے پیپلزپارٹی کو نئے بلدیاتی قانون پر نظرثانی کرنی چاہئے کیونکہ کراچی ایک ایسے موڑ پر ہے جہاں حزب اختلاف کی جماعتیں پہلے ہی بلدیاتی قانون کے خلاف دھرنے اور منظم احتجاج کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں جس سے کراچی کی سماجی و کاروباری زندگی مفلوج ہو کر رہ جائے گی اور اگر ایسا ہوا تو کراچی شاید اِس کا متحمل نہ ہو سکے۔ کراچی (سندھ) کی عوام کیاچاہتی ہے یہ جاننے کا بہترین طریقہ منصفانہ اور آزاد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہے اور اس کے لئے سندھ کو ایک ایسے قانون کی بھی ضرورت ہے جس میں کوئی ایک جماعت من مانی نہ کر سکے اور صوبے بھر کی مقامی انتظامیہ کو ان کے اختیارات سے محروم بھی نہ رکھا جائے۔ سندھ اور ملک کے دیگر تمام صوبوں میں بااختیار مقامی حکومت کا نظام وقت کی ضرورت ہے۔ مقامی حکومتیں ہی مقامی مسائل حل کر سکتی ہیں اور نسلی و لسانی تعصبات بھی مقامی حکومتیں ہی دور کر سکتی ہیں۔ کیا سندھ اُنیس سو اَسی اُور نوے کی دہائی میں ہونے والے دور میں واپس جانا چاہتا ہے، اس ہنگامہ خیز دور میں جانے سے بچانے کے لئے تمام سیاسی فیصلہ سازوں اور دانشمندوں کو اپنا اپنا کردار ذمہ داری سے ادا کرنا چاہئے۔ جس طرح صوبوں نے وفاق سے اپنے حقوق حاصل کئے ہیں اِسی طرح صوبائی حکومت کو اپنے اختیارات کا بڑا حصہ جو عوامی خدمت سے متعلق ہے بلدیاتی نمائندوں کے سپرد کردینا چاہئے۔ اِسی میں سیاسی جماعتوں کی بھلائی‘ بہتر مستقبل اور بالخصوص پارلیمانی جمہوریت (طرزحکمرانی) کا استحکام (مفاد) پوشیدہ ہے۔کیونکہ سیاسی جماعتوں نے ایک خاص مدت کے بعد عوام کے پاس جانا ہوتا ہے اور ان کی تائید سے حکومت یا اپوزیشن کے منصب پر فائز ہوتی ہیں۔