مرکزی کابینہ نے حال ہی میں فوجداری کیسز کا فیصلہ نو ماہ میں کرنے کا جو حکم صادر کیا ہے وہ ایک نہایت صائب فیصلہ ہے پر اس پر ہمیں یاد ہے کہ کچھ اسی قسم کا فیصلہ جنرل مشرف کے دور حکومت میں بھی ہوا تھا اس وقت بھی حکومت وقت نے یہ بات کی تھی کہ چونکہ عام سول عدالتوں پر فوجداری مقدمات کا بوجھ ہے جس کی وجہ سے سالہا سال سے فوجداری مقدمات ان میں زیر التوا ہیں لہٰذا ان کو جلد نبٹانے ک واسطے نیب کے تحت خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گاپر افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ایسا ہوا نہیں اس ضمن میں کسی بھی نئی پیش رفت سے پہلے اس بات کی تحقیق کر کے حقائق عوام کے سامنے لانے ضروری تھے کہ آ خر وہ کونسی وجوہات تھیں جو فوجداری مقدمات کے فیصلوں کے آ ڑے آ تی رہیں ان سرکاری اہلکاروں کو نشان عبرت بنانا ضروری تھا کہ جنہوں نے دانستہ یا غیر دانستہ ان مقدمات کو طولانی کیا اور جو حکومت کی بد نامی کا موجب بنے۔ اس حوالے سے موجود خامیوں کو ختم کئے بغیر اس ضمن میں کوئی پیش رفت نا ممکن ہے قابل ذکر ہے کہ ہماری عدلیہ احسن طریقے سے تمام امور کو نمٹا رہی ہے اور کسی مرحلے پر کام کے بوجھ کو پرفارمنس پر حاوی نہیں ہونے دیا‘ ہمیں یہاں پربرطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل کا ایک خوبصورت جملہ یاد آ رہا ہے دوسری جنگ عظیم کے دوران شاید ہی کوئی ایسا دن ہوتا کہ جب جرمن طیارے لندن پر بمباری نہ کرتے اور یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری تھا ایک دن سرونسٹن چرچل نے برطانیہ کے ہوم سیکرٹری سے پوچھا کہ کیا عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں تو اس کے جواب میں انہوں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ جی ہاں بالکل اس جواب پر چرچل نے یہ معنی خیز جملہ کہا کہ اگر عدالتیں صحیح کام کر رہی ہیں تو پھر ہٹلر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور برطانیہ کو کچھ بھی نہیں ہوگا۔موجودہ حالات کی مناسبت سے کئے فیصلے یقینا قابل ستائش ہیں تاہم ان فیصلوں کے عملی ہونے کے بعد سامنے آنے والے نتائج کی موثر مانیٹرنگ اس لئے ضروری ہے کہ اٹھائے گئے اقدامات کے نتائج ہی اس کے موثر ہونے کی گواہی دے سکتے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں عالمی منظر نامے کی جہاں نیٹو ممالک اور روس کے درمیان کشیدگی آخری حدود کو چھونے لگی ہے اور برطانیہ کے وزیر اعظم کایہ بیان کافی سخت ہے کہ اگر روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو اس کے فوجی واپس گھر نہیں لوٹ سکیں گے۔ دوسری طرف امریکہ نے یوکرائن کی فوج کو ہر طرح کے ہتھیار پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور روس کی سرحد پر مختلف قسم کے ہتھیاروں کی تنصیب بھی جاری ہے۔ مبصرین اس پیش رفت کو دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والے متوقع بڑا واقعہ قرار دے رہے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے اثرات چند ممالک تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یہ جنگ پوری دنیا کو لپیٹ میں لے سکتی ہے جس سے تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ایسے حالات میں کہ جب پوری دنیا کورونا کی نئی قسموں سے نبردآزما ہے اور عالمی برداری کواس کا مقابلہ کرنے کیلئے مل کر کوششیں کرنے کا عملی مظاہرہ کرنا چاہئے تھا وہ آپس میں نبرد آزما ہیں اور ایک طرف اگر روس اور امریکہ ایک دوسرے کو آنکھیں دکھا رہے ہیں تو دوسری طرف چین کے ساتھ بھی امریکہ کی آنکھ مچولی جاری ہے۔لگتا ہے کہ رواں سال عالمی منظرنامے پر بحرانوں کے حوالے سے یادگار سال بن جائے گا۔ایک طرف کورونا کے وار ابھی جاری ہیں اور دوسری طرف عالمی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی زوروں پر ہے جس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے اور بدقسمتی سے اگر یوکرائن کے مسئلے پر لڑائی شروع ہو جاتی ہے تو یہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہے گی۔بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آئے گی۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سابقہ فاٹا زمینی حقائق کے تناظر میں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ