کرکٹ کے قومی مقابلوں کا آغاز آج (ستائیس جنوری) سے ہو رہا ہے۔ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) نامی سالانہ مقابلے ’کرکٹ بورڈ (PCB)‘ کے زیرانتظام 2015ء میں شروع کئے گئے تھے اور رواں برس (دوہزاربائیس) اس سلسلے کا ”ساتواں ایڈیشن“ ہے‘ جس میں کل 6 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ 34 ٹی ٹوئنٹی میچز پر مبنی یہ مقابلے جنہیں ڈبل راؤنڈ رابن اور پلے آف کے اصولوں پر کھیلا جائے گا‘ ستائیس جنوری سے ستائیس فروری نیشنل سٹیڈیم (کراچی) اور قذافی سٹیڈیم (لاہور) میں کھیلے جائیں گے‘ جہاں اِن کی تیاریاں گزشتہ کئی ماہ سے جاری رہیں اور اِن مقابلوں سے منسلک ہر خاص و عام اپنے اپنے حصے کا کام بروقت نمٹانے کی دوڑ میں دکھائی دیا۔ ایک طرف کھلاڑی اپنی فٹنس اور کارکردگی کی نوک پلک سنوارنے میں لگے ہیں تو دوسری طرف غیر ملکی لیگ کھیلنے والوں کو واپس بلا لیا گیا۔ کہیں کوئی اپنی ٹیم کیلئے فتح کی حکمت ِعملی وضع کرنے میں مصروف ہے تو کسی کو گراؤنڈ میں تماشائیوں کیلئے انتظامات مکمل کرنے کی فکر ہے۔ کھلاڑی اور آفیشلز بائیو سکیور ببل میں آچکے ہیں۔ تو ایسے ماحول میں پی ایس ایل کے چیدہ چیدہ ریکارڈز کا ذکر بے محل نہیں ہوگا۔اب تک کھیلے گئے پی ایس ایل کے چھ ایڈیشنز میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے سب سے زیادہ یعنی دو مرتبہ ٹائٹل جیتے ہیں۔ پشاور زلمی‘ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز‘ کراچی کنگز اور دفاعی چیمپئن ملتان سلطانز نے یہ اعزاز ایک ایک بار جیتا ہے جبکہ لاہور قلندرز اب تک صرف دل ہی جیت پائی ہے پشاور زلمی سب سے زیادہ میچ کھیلنے اور جیتنے کا اعزاز رکھتی ہے‘ جس نے ستر میچز کھیلے اور اڑتیس میں فتح حاصل کی۔ اِسی طرح یونائیٹڈ اپنے چھپن فیصد سے زائد میچ جیت کر کامیابی کی بہترین اوسط رکھتی ہے یوں کوئی بھی ٹیم دوسرے کم نہیں اور ہر ایک کے ذہن میں نئے ریکارڈ قائم کرنے کی دھن ہے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کی بات کریں تو اب تک کا سب سے بڑا ٹوٹل سکور اسلام آباد کے نام ہے جو دوہزاراکیس میں انہوں نے پشاور زلمی کے خلاف بیس اوورز میں 247 رنز بنائے تھے۔ ویسے دوسرا سب سے بڑا ٹوٹل 238 بھی اسلام آباد یونائیٹڈ ہی کا ہے البتہ زلمی اور قلندرز نے سب سے زیادہ یعنی چار چار بار دوسو یا اِس سے زائد رنز کا مجموعی سکور کر رکھا ہے۔ سب سے کم ٹوٹل پر آؤٹ ہونے کا دھبّہ فی الحال قلندرز کے دامن پر ہے۔ سال دوہزارسترہ میں لاہور کی پوری ٹیم زلمی کے خلاف محض 59 رنز بنا کر ڈھیر ہوگئی تھی۔ اب تک پی ایس ایل میں 100 رنز سے کم ٹوٹل پر آؤٹ ہونے کے چھ واقعات ہوئے ہیں اور قلندرز کو یہ خفت تین بار اٹھانا پڑی ہے۔کوئی بھی کھیل جیت یا ہار پر مشتمل ہوتا ہے۔ کوئی بھی ٹیم ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ کرکٹ میں کھیل بہ نسبت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور کسی ٹیم کی جیت یا ہار صرف وقتی بُری یاد ہوتی ہے۔ درحقیقت کرکٹ شائقین کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں اگر ایسا نہ ہو تو سوائے اپنی پسندیدہ ٹیم دیگر ٹیموں کے مقابلے نہ دیکھے جائیں۔ رنز کے اعتبار سے پی ایس ایل تاریخ کی سب سے بڑی جیت ملتان سلطانز نے گلیڈی ایٹرز کے خلاف دوہزاراکیس میں ایک سو دس رنز کی حاصل کی تھی۔ ایک سو یا اِس سے زائد رنز کی یہ جیت پی ایس ایل کی واحد فتح ہے۔ پی ایس ایل میں اب تک پانچ ایسے مقابلے ہو چکے ہیں جن کا فیصلہ صرف ”ایک رن“ کے فرق سے ہوا۔ گلیڈی ایٹرز ایسے دو کانٹے دار مقابلوں میں فاتح رہی۔ وکٹوں کے اعتبار سے اب تک تین ٹیمیں دس وکٹوں سے ظفریاب رہی ہیں جبکہ دو بار ٹیموں نے ایک‘ ایک وکٹ سے کامیابی اپنے نام کی۔ کرکٹ کا ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ مقابلہ اصل میں بلے بازی کے جوہر دکھانے کے لئے تخلیق کیا گیا اور اگرچہ پی ایس ایل ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کا مقابلہ ہے لیکن اِس میں کبھی بیٹنگ تو کبھی باؤلنگ حاوی رہتی ہے اور یوں یہ پورا ٹورنامنٹ ہی ناقابل یقین واقعات کا مجموعہ رہتا ہے۔ اِس مرتبہ (سیزن سیون) بھی ماضی سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا کہ بھرپور اعتماد کے ساتھ میدان میں اُترنے والی پشاور زلمے کی ٹیم شروع دن سے اپنا دبدبہ قائم کرنے کی کوشش کرے گی۔ پی ایس ایل کی اب تک کی سب سے بڑی انفرادی اننگ ناقابلِ شکست ایک سو ستائیس رنز کی تھی‘ جو کراچی کنگز کیلئے جنوبی افریقی کولن انگرام نے دوہزاراُنیس میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف کھیلی۔ مجموعی طور پر اب تک پی ایس ایل میں دس سنچریاں بنی ہیں۔ کامران اکمل نے سب سے زیادہ یعنی تین جبکہ شرجیل خان نے دو سنچریاں بنا رکھی ہیں اور ان کے علاوہ کسی اور پاکستانی بلے باز نے سنچری اسکور نہیں کی۔ پاکستان سپر لیگ کی دھوم دنیا بھر میں ہے اور یہ باؤلنگ میں اپنے بلند معیار کے لئے جانی جاتی ہے۔ کئی عالمی کھلاڑی‘ کوچز اور ماہرین اس بات پہ مہر تصدیق ثبت کرچکے ہیں۔ باؤلنگ میں وہاب ریاض اب تک 94وکٹیں حاصل کرکے سب سے آگے ہیں۔ اُمید ہے کہ وہ اس ایڈیشن میں اپنی 100 پی ایس ایل وکٹیں حاصل کرنے کا سنگ میل عبور کر لیں گے اور پی ایس ایل تاریخ کے پہلے سنچری باؤلر ہونے کا اعزاز پائیں گے۔ کورونا کے تناؤ بھرے میں ماحول میں ’پی ایس ایل (سیزن سیون)‘ کا آغاز خوش آئند ہے‘ جس سے وابستہ توقعات نہ صرف ملک میں عالمی کرکٹ کی واپسی ہے بلکہ کھیل کے ذریعے قوم کیلئے معیاری تفریح اور پاکستان کی قومی ٹیم کیلئے نئے ٹیلنٹ کی دریافت کا ذریعہ بھی یہی ’پی ایس ایل‘ ہے۔