جاتی ہوئی بہار 

سردی کی جاتی ہوئی بہار ہے۔اگرچہ کہ خزاں کا دور دورہ ہے۔پتے شاخوں پر سے جھڑتے چلے جاتے ہیں۔آنے والے موسم کی تیاریاں ہیں۔مگر سردی کا اپنا جوبن ہے۔جو اس وقت رواں دواں ہے۔ جس میں روز نئی شان ہوتی ہے۔نئی ٹھنڈک اور نئی سی ٹھنڈی سانسیں جسم و جاں میں اُتر کر روح تک کو یخ بستہ کر دیتی ہیں۔منہ سے جیسے دھوئیں نکلتے ہوں۔ مگر بچوں نے تو سکول جانا ہے۔خواہ جتنی بھی سردی ہو۔اس سرما میں بچوں کی واحد امید اورخوشی سردی کی چھٹیاں ہیں۔ وہ آخر کار اختتام ہو چکی ہیں۔ اب تو بچے بھی اس خوشی سے محروم ہو چکے ہیں۔سنتے تھے کہ سردی زیادہ ہو تو چھٹیاں بھی زیادہ ہوں گی۔ بچے تو بچے ہیں ان کو وائرس کی خطرناکی سے جانکاری کیا۔جب اخبار میں دیکھا کہ صوبہ کے پی میں سکول بند نہیں ہوں گے تو ان کے چہروں پر مرجھاہٹ چھانے لگی۔ پھر سکول میں ان کو کون سی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ڈھیروں کتابیں ہیں اور ساتھ کاپیا ں ہیں۔بستہ کا بوجھ ہے۔ہر سکول کا اپنا کورس ہے اپنی کتابیں ہیں۔ جن کو انھوں نے پڑھناہے یا نہیں پڑھنامگر انھوں نے اس بوجھ کر کمر پرلاد کر کبڑے ہوکر چلنا ہے۔میل بھر تو چلنا ہوگا۔وگرنہ اگر حیثیت ہوئی تو دروازے پرگاڑی آئے اور وہ سکول کی راہ لیں گے۔اس جاتی ہوئی سردی کا اپنا مزاہے۔ہم لوگ تو کیا انسان کی سرشت میں شامل ہے کہ وہ کسی بات سے خوش نہیں ہوتا۔ ہمیشہ گلہ مند ہی رہتا ہے۔کبھی تقدیر سے گلہ اورکبھی حالات و اقعات ایسے ہو جاتے ہیں کہ گلہ مندی ان کی روز کی عادت بن جاتی ہے۔پھر آج کل کے جو حالات اس سرزمین پررواں دواں ہیں وہ بھی کچھ اس طرح دگرگوں ہیں کہ لبوں سے گلوں کے کانٹے ہی چھلکتے ہیں۔سردی ہو گرمی ہو ہر موسم کے اپنے اثرات ہوتے ہیں۔ پھر ہم ایک موسم میں نا خوش ہوکر دوسرے موسم کی آمد کو تڑپنا شروع ہو جاتے ہیں۔جب وہ موسم وہ گھڑی آن رہتی ہے تو پھر سے اکتاہٹ اور بوریت کا شکارہو جاتے ہیں کہ اب یہ سردی کب جائے گی۔ مگر ان دنوں تو چند دن باقی ہیں۔پھرچند ہی روز بعد جب فروری شروع ہوگا توایک دم سے موسم کی ٹھنڈک بدل کر تپش کی صورت اختیار کرلے گی۔ پھر آہستہ آہستہ درمیانے موسم کے مزے لے کر جب سخت گرمی کی حدود میں داخلہ ہوگا تو ہم پھر سے فریادی ہوں گے کہ اب سردی کب آئے گی۔ سو اس جاتی ہوئی سردی کے مزے لے لیں۔ کیونکہ جب گرمی کی شدت میں ان دنوں کو یاد کرنا ہے تو کیوں نہ سردی کو انجوائے ہی کر لیں۔ یہ الگ بات کہ یہا ں تو اکیس مئی سے موسم میں گرمی کی ملاوٹ ہوگی۔ مگر دو سال پہلے تو مری میں اپریل کے مہینے میں برف باری ہوئی تھی۔پھر ایسا ہوتا تو نہیں مگر ایسا ہوا تھا۔سو اگر ٹھنڈے علاقوں کو اوپر جانا ہے تو وہ کسی بھی گرمی کے مہینے میں جا سکتے ہیں۔وہاں تو ان خاص گرمی کے دنوں میں خاص ٹھنڈک ہوگی اور زندگی کا لطف دوبالاہوگا۔ سو جو اس وقت سردی کے دن آہستہ رو مگر رینگ رہے ہیں اور نامعلوم طریق سے دھیرے دھیرے گرمی کی طرف آمادہ ہیں۔ ان دنوں سے مزا کشید کر لیں تو بہتر ہوگا۔ صبح سویرے چائے نوش کرتے ہوئے اگر گیس نہیں تونہ سہی ہمیں کون سی گیس کی امید ہے۔لکڑیوں پر ہی آگ جلا کر چائے پکا  لیں یا پھر گیس سلینڈر کو کمرے میں رکھ کر چائے کی کیتلی چولھے پر دھر لی تو ایک تیر میں دوشکار والی بات ہے۔اس سردی میں چولھے پر ہاتھ تاپیں اور ساتھ ساتھ چائے بھی پکتی رہے۔اگر باہر نکلنا مشکل ہوا جاتا ہے تو رات کی روٹی کو گھی میں تل کر کھانے میں جو مزا ہے وہ کچھ وہی لوگ جانتے ہیں جو اس کے عادی ہیں۔وگرنہ یہ تو اور بات ہے اور قابلِ توجہ ہے کہ اب تو عام طور سے گھی میں تلی روٹی تیار کرنا بھی تو پہاڑ پر چڑھنے جیسے راستے کی طرح مشکل ہے۔ گھی کون سا سستا ہے۔یہ وہ گھی ہے جو ٹیڑھی انگلیوں سے بھی نہیں نکلتا۔ ایک تو از حد مہنگا پھر پاؤ کا پیکٹ بھی لیں تو ایک آدھ دن ہی چلے گا۔پھرسردی کے مارے اتنا سخت ہو گا کہ انگلیاں تووہاں کام نہیں کریں گی۔سو اس پلاسٹک کور کو چیرنے کے لئے انگلیوں کے بجائے چھری کانٹے سے کام لے کرا س کو کاٹ کر اس کے ڈلے بناکر انڈے کیلئے فرائی پان میں ڈالناہوں گے۔اگر کسی گھر میں پراٹھے پکانے کا بندوبست موجود ہو تو کیا ہی بات ہے۔مگر میں سوچتا ہو ں کہ جہاں جس گھر میں نہ توآگ ہے او رنہ ہی گھی ہے اور نہ ہی پراٹھوں کا نیا اور عجیب کام ہے وہ کیاکرتے ہیں۔وہ بس زندگی کو گذار رہے ہیں۔پھر یوں کہہ دینے میں کیا حرج ہے کہ خودزندگی ان کوایک طرف ہٹا رہی ہے ان کو خود آپ گذار رہی ہے۔مگر جن کو زندگی کی آسانیاں دستیاب ہیں وہ ان جنوری کے آخری ہفتہ کو انجوائے کریں۔ ویسے انجوائے کرنا ایک طرح سے نہیں۔ ہر طرح سے ہر طبقہ زندگی کواور پھر خاص ان دنوں کی سردی سے مزا اٹھاتا ہے۔بس یہ ہے کہ ہر ایک کی اپنی کوشش ہے اور کوئی کس طرح چائے پیتا ہے اور کوئی کیسے صبح کو چائے کے گھونٹ حلق میں اتارتا ہے۔کیونکہ ایسے موقع پر بعض چائے کے گھونٹ میٹھے تو ہوتے ہیں مگر کہیں کسی گھر میں یہی گھونٹ چینی ڈال کر بھی کڑوے ہوتے ہیں۔