تلخ حقیقت و حقائق

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے جنوبی سوڈان کو دنیا کا ’کرپٹ ترین‘ جبکہ فن لینڈ‘ نیوزی لینڈ اور ڈنمارک کو پہلے نمبر پر قرار دیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سال دوہزاراکیس کی عالمی درجہ بندی میں امریکہ ستائیسویں جبکہ بھارت پچاسیویں نمبر پر رہا۔ مختلف ممالک میں بدعنوانی کی شرح اُور اِس کی وجوہات یا محرکات الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل عالمی شہرت و ساکھ کا حامل ادارہ ہے جو 1993ء سے عالمی بینک کے درجن بھر سابق حکام نے مل کر تشکیل دیا تھا۔ اس کا ہیڈکوارٹر برلن (جرمنی) میں ہے جبکہ دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک میں اس کی شاخیں قائم ہیں۔ اس ادارے میں متعلقہ ممالک کی کسی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں جسے ایک آزاد‘ غیرمنفعت بخش غیرحکومتی ادارے کی حیثیت سے جرمنی میں رجسٹرڈ کرایا گیا۔ اور دنیا کے مستند نمائندہ اداروں جی ٹوئنٹی ممالک‘ اقوام متحدہ‘ یونیسکو‘ یواین ایس ڈی جی کی بھی اِسے معاونت حاصل ہے۔ گلوبل سول سوسائٹی آرگنائزیشن کی حیثیت سے یہ ادارہ دنیا کے 180 ممالک میں کرپشن کی بنیاد پر ہونے والی ناانصافیوں کی نشاندہی کرکے اِن کے سدباب کے لئے رہنما اصول (گائیڈ لائنز) مہیا کرتا ہے‘پاکستان ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا رکن ہے اُور اِسی عدسے سے یہ اپنے ہاں کرپشن کے عوامل و محرکات کا جائزہ لیتا ہے تاہم اس ادارے کی رپورٹ کسی مخصوص نکتہئ نظر سے ہرگز مرتب نہیں کی جاتی۔ اس وقت جو رپورٹ زیر بحث ہے اس میں پاکستان کی درجہ بندی میں تنزلی کو دکھایا گیا ہے، جس پر حکومت کا موقف کچھ اور ہے اور حزب اختلاف کا کچھ اور تاہم یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ  پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے قبل کرپشن کی دلدل میں دھنس رہا تھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کرپشن کے نتیجے میں غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ قومی وسائل جو عوام کی بہبود پر خرچ ہونے چاہیئں وہ چند افراد کے ذاتی اثاثوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ایسے سرکاری ملازمین کی تعداد بائیس ہزار سے زیادہ ہے جو پاکستان کے علاوہ غیرملکی شہریت بھی رکھتے ہیں اور اِسی بنیاد پر اُنہوں نے بیرون ملک جائیدادیں اور بینک کھاتے کھول رکھے ہیں۔ غیر ملکی شہریت کے حامل افراد چاہے فیصلہ سازی کے جس کسی منصب پر بھی فائز ہوں‘ وہ قومی وسائل کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں جبکہ یہی کرپشن حکومتی ترقیاتی منصوبوں کی شفافیت پر بھی سوال ہے۔ فیصلہ سازی میں جلدبازی سے اِجتناب کرتے ہوئے اگر درجہ بہ درجہ متعلقہ ماہرین سے قومی مشاورت کا سلسلہ شروع کیا جائے تو اِس سے قومی وسائل میں بچت اور سرکاری منصوبوں یا کام کاج میں شفافیت کا عنصر غالب ہوگا۔ قانون و انصاف کی حکمرانی اور مافیاز کے خلاف عملی اقدامات کئے بغیر اصلاح احوال ناممکن ہے۔ وقت ہے کہ امور مملکت اور قومی معاملات پر بہرحال نظرثانی کی جائے۔ عوام کے مینڈیٹ کی عزت اور جمہوریت کی ساکھ صرف اِسی صورت بچائی جا سکتی ہے جبکہ بڑھتی ہوئی بدعنوانی پر قابو پایا جائے‘ جس کے لئے اضافی مالی وسائل کی نہیں بلکہ قوت ارادی کی ضرورت ہے اور اِس سے قومی وسائل کی بچت بھی ممکن ہو۔ حکومت ایک طرف تو عوام پر ٹیکس عائد کرتی ہے اور نہایت ہی سخت شرائط پر قرضوں سے مالی وسائل بمشکل اکٹھا کرتی ہے لیکن دوسری طرف بدعنوان عناصر باآسانی یہ سرمایہ لوٹ لے جاتے ہیں۔ قومی وسائل کی لوٹ مار  کے سلسلے کو روکنے کیلئے موجودہ حکومت نے ماضی کے مقابلے میں زیادہ موثر اقدامات کئے ہیں تاہم ان سب کے باوجود اگر کرپشن جاری ہے تو اس حوالے سے مزید مشاورت  کی ضرورت ہے تاکہ حکومت کا کرپشن ختم کرنے کا مقصد حاصل ہو۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل میں دیئے گئے اشارے ہی کسی بھی ملک میں بدعنوانی کا پیمانہ نہیں ہے بلکہ اس سے ہٹ کر بھی بہت سے عوامل ہیں جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جہاں تک ملک میں کرپشن کے حوالے سے موجودہ حکومت کی کوششوں کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کرپشن کے خاتمے کا ایجنڈا لے کر آئی ہے اور شروع دن سے شفاف موقف رکھتی ہے جبکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے قطع نظر کئی شعبوں میں بدعنوانی کے محرکات کو کم سے کم رکھنے یا ان کا مکمل خاتمہ کرنے کی کامیابی کوششیں کی گئی ہیں جس میں پٹوارخانوں کے معاملات کو دستاویزی بنانا قابل ذکر ہے اس طرح دیگر شعبوں میں بھی ڈیجیٹائزیشن کو رائج کرنے کے ذریعے مثبت نتائج حاصل کئے گئے ہیں۔