کلاس روم میں بعض ٹیچر حضرات اپنے مقررہ ٹائم سے زیادہ پڑھا لیتے ہیں۔ پھر ان کا اخلاص یہ چاہتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ پڑھائیں۔جو وقت ایک پیریڈ کے لئے مخصوص ہوتا ہے وہ اس سے زیادہ ٹائم لیتے ہیں۔ بلکہ دوسرے ٹیچر کا پیریڈ بھی اپنے مقررہ وقت میں شامل فرماتے ہیں۔ان کا مقصد یہ ہو تا ہے آج کا کام کل پر نہ چھوڑیں۔ پھر خواہش ہوتی ہے کہ آج کے آج ہی معاملہ ختم ہو جو چیپٹر وہ پڑھارہے ہیں وہ ختم ہو جائے۔ تاکہ اگلا چیپٹر کل شروع کر سکیں۔ اس سے ان پر جو کورس ختم کرنے کا دباؤ ہوتا ہے وہ کم ہو جائے۔ اصل میں وہ اپنی ڈیوٹی نبھا رہے ہوتے ہیں۔مگر معاملہ کچھ اور صورت اختیار کر جاتا ہے۔یہ کلاس خواہ چالیس منٹ کی ہو یا ایک گھنٹہ کی ہو۔جب پیریڈ کی گھنٹی بجتی ہے یا کلاس میں کوئی سٹوڈنٹ کہہ دے سر جی کلاس کا وقت ختم ہو گیا ہے۔اس سے تو اول اس بچے کی شامت آ جاتی ہے۔ اسے خوب جھاڑ جھنکار اور ڈانٹ ڈپٹ پڑتی ہے۔لیکن طلباء و طالبات کو علم ہوتا ہے کہ کلاس کا وقت ختم ہو گیا۔ اس لئے وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ بعض آپس میں کھسر پھسر میں مصروف ہو جاتے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ جب کلاس کا وقت ختم ہو جائے تو نہ صرف طلبا ء کا آئی کنٹیکٹ ختم ہو جاتا ہے بلکہ استاد کے ساتھ ذہنی رابطہ بھی منقطع ہو چکا ہوتا ہے۔جس کے بارے میں عام طور سے استاد کو معلوم نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ سٹوڈنٹ ہمہ تن گوش ہو کرمیری باتیں سن رہے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ جب وقت ختم ہو جائے تو چاک جہاں سے اٹھایا وہیں رکھ دیں مارکر بند کر کے کلاس کے مانیٹر کو دے دیں یا جیب میں لائے تو جیب میں ڈال لیں۔ طلباء کبھی بھی اس وقت ذہنی طور پر حاضر نہیں رہتے جب پیریڈ کے ختم ہونے کی گھنٹی بج جاتی ہے۔کیونکہ سٹوڈنٹ بھی آخر انسان ہیں۔پھر وہ مسلسل کلاس لے رہے ہوتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسری کلاس او ریہ سلسلہ صبح آٹھ بجے سے جوں شروع ہوتا ہے تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ حتیٰ کہ دوپہر کے بعد ایک بجے کا ٹائم شروع ہو جاتا ہے۔یہاں تو بچوں کو مشین سمجھا گیا ہے۔ بعض اداروں میں تو ٹی بریک بھی نہیں ہوتی او رنہ ویسے ہی کوئی وقفہ ہوتا ہے۔ہاں اگر کوئی ٹیچر کالج سکول میں آیاہو اور سوئے اتفاق کلاس لینے نہ آئے تو بچوں کو جمائیاں لینے اور انگڑائیاں رچانے کا وقت مل جاتا ہے۔اس موقع پر وہ ریلیکس ہو نے لگتے ہیں۔یا پھر ایسے میں کہیں باہر لان میں ٹہل لئے یا کینٹین کا چکر لگا لیا کہیں چائے کا کپ پی لیا۔ورنہ اگر وقفہ نہ ہو تو سٹوڈنٹ کا مائنڈ تھک ہار جاتا ہے۔ایسے میں ان کی کارکردگی خراب ہونے لگتی ہے۔ان کو ریلیکس ہونے کا وقت ملنا چاہئے۔ اوور ڈوز کی بات چلی ہے تو بعض ٹیچر دوسرے استاد کا پیریڈ بھی اپنی اسی کلاس میں شامل کر کے کلاس کو بہت ہیوی بنا دیتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑا کارنامہ سرانجام دے رہے۔ مگرایسی کوئی بات نہیں۔سٹوڈنٹ کبھی اس بات سے خوش نہیں ہوتے۔وہ کلاس میں گپ شپ کا ماحول چاہتے ہیں۔مگر گپ شپ بھی ایک حد تک ہو۔حد سے زیادہ ہنسی مذاق یا ہلنا جلنا ٹھیک نہیں۔مگر ایک سے دوسری کلاس کے شروع ہونے سے پہلے کلاس میں پانچ منٹ پہلے نکل آئیں۔ایسے میں کچھ ٹائم جو آرام کاملتا ہے۔اس میں طلبا ء طالبات کا ذہن ریفریش ہو جاتا ہے۔جیسے ڈیٹا کا لوڈ پڑنے پر کمپیوٹر کو ریفریش کیا جاتا ہے یا موبائل کو کلین کرتے ہیں۔اسی طرح ذہن کی کارکردگی اس موقع پھر زیادہ فعال ہوجاتی ہے۔بعض ٹیچر حضرات اپنے تئیں خلوصِ نیت سے پڑھاتے ہیں اور اتنا پڑھاتے ہیں کہ ان کی منشاء میں یہ ہوتا کہ جو ان کے اپنے ذہن میں استاد کی حیثیت سے موجود ہے وہ سارے کاسارا ایک ہی وقت میں سٹوڈنٹس کے دماغ میں انڈیل دیں۔پھر ایسے بھی استاد ہم نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھے ہیں کہ ان میں نیت کا اخلاص اور طلباء سے سیریس ہونا اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اپنی کلاس ختم کرلینے کے بعد جب وہ فرلانگ بھر کا فاصلہ چمن میں سے ہوکر سٹاف روم تک طے کر لیتے ہیں۔اس موقع پر اچانک انھیں کوئی خیال آتا ہے کہ او ہو وہ بات تورہ گئی۔ یوں کہ جیسے کل کا دن نہیں آئے گا۔ وہ دوبارہ اسی کلاس روم چلے جاتے ہیں۔وہاں پہنچ کر دروازے پر انگلی سے ہلکی سی دستک دے کر اندر موجوددوسرے ٹیچر سے اجازت لے کر داخل ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ وہاں اس وقت ماحول بدل چکا ہوتا ہے اور کوئی ٹاپک اور مضمون زیرِ مطالعہ ہوتا ہے۔مگر وہ وہیں کمرے کی چوکٹھ میں کھڑے کھڑے کلاس کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ وہ رائٹر کا نام جو مجھ سے بھول گیاتھا وہ فلاں رائٹر ہے نوٹ کرلیں۔ اب ان صاحب کون سکھلائے کہ اگر بھول گیا تو انسان ہے مشین نہیں۔بھول گیاتو بھول گیا۔آپ صرف یہ ظاہر کرنے کے لئے کلاس روم میں دوبارہ سے گئے کہ کہیں سٹوڈنٹ دوسرے دن یہ سمجھیں کہ ٹیچر گھر سے کتاب دیکھ کر رائٹر کا نام یاد کر کے آیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ایسا تو ہوتا ہے۔پڑھنے کے بغیر کوئی ٹیچر کیسے پڑھا سکتا ہے۔