پی ایس ایل: شاندار آغاز؟

کرکٹ کے سالانہ قومی مقابلوں ”پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل)“ کے پہلے میچ کو پاکستانی قومی ٹیم کی اوپننگ جوڑی کا مقابلہ بھی سمجھا جا رہا تھا کیونکہ اس بار دونوں ہی اپنی اپنی فرنچائز ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں تاہم رضوان نے بابر اعظم کو ہر طرح سے پیچھے چھوڑ دیا۔ پی ایس ایل میں پہلی بار کپتانی کرتے ہوئے بابر اعظم کا آغاز شایانِ شان نہیں رہا۔ بابر نہ ہی بیٹنگ میں توقع کے مطابق کارکردگی دکھا پائے اور نہ ہی ان کی ٹیم میچ جیت سکی جبکہ دوسری جانب رضوان نے نہ صرف ٹورنامنٹ کا آغاز فاتحانہ انداز سے کیا بلکہ اس میں اپنی ناقابلِ شکست نصف سنچری سے نہایت اہم کردار بھی ادا کیا۔ یوں دوہزاراکیس میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ایک سال کے دوران دوہزار رنز بنانے والے پہلے بیٹسمین رضوان نے دوہزاربائیس میں بھی بہترین بیٹنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔ دفاعی چیمپیئن ملتان سلطانز نے ٹائٹل کے دفاع کا آغاز قدرے پراعتماد انداز سے کیا۔ کراچی کنگز کے لئے میچ سے پہلے ہی بُری خبر یہ تھی کہ عامر اَن فٹ ہونے کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہوگئے جبکہ سابق کپتان عماد وسیم کا قرنطینہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اگر پچھلے سال نیشنل سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے پی ایس ایل میچوں کا تذکرہ کریں تو یہ بات واضح طور پر ہمیں یاد ہونی چاہئے کہ اُس مرتبہ ٹاس کی اہمیت انتہائی اہم تھی اور ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیموں کو شکست دینا قریب قریب ناممکن رہا تھا لیکن اِس بار بھی صورتحال مختلف نظر نہیں آرہی ہے اور سیزن کے پہلے میچ میں ہم نے اس کا عکس دیکھ بھی لیا۔ ملتان سلطانز کے کپتان رضوان نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا۔ کراچی کنگز کی اننگ کا آغاز ہوا تو جہاں شرجیل بڑے شاٹس کھیلنے میں کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہے تھے‘ وہیں بابر اعظم اپنا اصل کھیل بھول چکے تھے۔ بابر اعظم کی ٹائمنگ ہمیشہ ان کے لئے بہت بڑا اثاثہ رہی ہے لیکن نسبتاً سست وکٹ پر بابر اپنی روایتی ٹائمنگ حاصل نہیں کر پائے اور نہ ہی وہ بڑے شاٹس کھیلنے میں کامیاب ہوسکے‘ یوں بتدریج دباؤ بڑھتا رہا اور وہ اُنتیس گیندوں پر محض تیئس رنز بناکر وکٹ دے بیٹھے۔ کراچی کنگز کی ٹیم اس بار ’پی ایس ایل‘ کے لئے بھرپور تیاریاں شروع کرنے میں آگے آگے تھی اور پریکٹس میچ میں بھی ایک بڑی فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی لیکن پہلے ہی میچ میں سوائے شرجیل خان کے کراچی کنگز کا کوئی بھی بیٹسمین ملتان سلطانز کے باؤلرز کا جم کر سامنا نہیں کرسکا۔ بیس اوورز میں کراچی کنگز کی صرف پانچ وکٹیں ہی گریں لیکن سوائے شرجیل خان کے کوئی بھی بیٹسمین ایک سو دس سے زیادہ کے سٹرائیک ریٹ سے نہیں کھیل سکا۔ جدید دور کی وائٹ بال کرکٹ میں اگر کوئی ٹیم اپنے دستیاب وسائل سے مکمل فائدہ نہیں اٹھا پاتی تو اس ٹیم کا فتح حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہی ہوجاتا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے چاہے کوئی ٹیم تمام وکٹیں کھو دے لیکن تیز کھیلنے کی ہر ممکن کوشش ہی جیت کا واحد طریقہ ہے۔ یہ ضرورت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب آپ جانتے ہوں کہ ان وکٹوں پر ہدف کا تعاقب کافی آسان ہے لہٰذا یہاں پہلے کھیلتے ہوئے جیت کا واحد طریقہ اتنا بڑا ہدف کھڑا کرنا ہے کہ جسے دیکھتے ہی مخالف ٹیم کے حوصلے پست ہوجائیں مگر کراچی کنگز کے تقریباً سبھی بیٹسمین ایسی کوششوں سے کوسوں دور نظر آئے۔پی ایس ایل کے سبھی سیزنز میں ’ٹاس‘ کی بڑی اہمیت ہے۔ سپر لیگ کے گزشتہ سیزن اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں بعد میں کھیلنے والی ٹیموں کو بہت زیادہ فائدہ حاصل رہا ہے۔ زیادہ تر میچ بعد میں کھیلنے والی ٹیمیں ہی جیت پائی تھیں اور ’پاکستان سپر لیگ سیون‘ کا آغاز بھی ایسے ہی ہوا ہے اگرچہ یہ صرف پہلا میچ تھا اور ہدف بھی کچھ خاص نہیں تھا لیکن پھر بھی کرکٹ بورڈ کو کچھ نہ کچھ ایسا کرنا ہوگا جس سے پہلے اور بعد میں بیٹنگ کرنے والی ٹیموں کو برابر مواقع میسر ہوں ورنہ گزشتہ ’پی ایس ایل‘ سے موجودہ پی ایس ایل زیادہ مختلف نہیں ہوگا جس میں پہلے کھیلنے یعنی ٹاس جیتنے کا مطلب میچ جیتنا بھی ہوتا تھا۔