ریت‘اینٹ‘سیمنٹ بجری‘گارا پانی۔ان سب سے مکان اور مکانات بنائے جا تے ہیں۔پھر آج کل سردی کاموسم ہے۔ اس لئے اس قسم کی تعمیرات کا سلسلہ زوروں پر ہے۔وہ اس لئے کہ جب گرمی آ جائے گی تو مزدوروں کو تپش میں کام کرنے میں تکلیف پیش آتی ہے۔سو تعمیری کاموں کے لئے ٹھنڈ کے دن زیادہ موزوں ہو تے ہیں۔صبح بچوں کوسکول چھوڑنے جائیں توراستے میں نوتعمیر مکانات پرنظر پڑتی ہے۔پھر کچھ تو زیرِ تعمیر ہوتے ہیں کیونکہ صبح کے اس سمے ٹریفک کی ابتری کا وہ عالم نہیں ہوتاجو دن چڑھے اپنی روٹین کی کاروائی سے شروع ہو کر دن ڈھلے اختتام پذیرہوتا ہے۔ٹریکٹر ٹرالیاں اور ٹرک ریت سیمنٹ وغیرہ لا رہے ہوتے ہیں۔مجھے یہ تعمیر و مرمت اور عمارت سازی کے کام دل سے پسند ہیں۔کیونکہ جو بھی ہو تخریب اور خرابی کے کام تو نہیں ہیں۔سو اچھا ہے اور سوبار بہتر کہ تخریب سے تعمیر کا وجود ممکن ہو۔گمان کاممکن ہو۔کچھ خواب ہیں جو آنکھیوں میں دِکھتے ہیں او رپھر تعمیر کر کے ان کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔ ”یہ الگ بات کہ تعمیر نہ ہونے پائیں۔ ورنہ ہر ذہن میں کچھ تاج محل ہوتے ہیں“۔ تعمیر کا سلسلہ درازہو کر تاج محل تک پھیل جاتا ہے اورحسن وخوبی کی نوید لاتاہے۔پھر ایفل ٹاور اور برج خلیفہ اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر تک اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے لیکن دوسری طرف ان تعمیرات کا ایک اور پہلو بھی ہے۔جس کی طرف عام طور سے عوام النا س کادھیان کم ہی جاتا ہے۔جو مجھے بہت خائف کرتاہے اور میں اس پر سوچ وبچار میں مصروف رہتا ہوں۔مس ئلہ یہ کہ ہم روزانہ بازار وں اور گلی محلوں سے گذرتے ہیں۔مگر ہمارا دھیان اس طرف ہوتا ہے کہ رش ہے اور اس بھیڑ میں کہیں کسی کو اپنی گاڑی سے ٹکر نہ مار دیں۔ کوئی ہمیں ٹھوک بجا کر نکل نہ بھاگے۔گاڑی کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ احتیاط کے دامن کو بھی تھا م رکھا ہوتا ہے۔ مگر سکول لے جانے والے بچوں کے لئے بھی موقع پرصبح سویرے چونکہ رش کا وہ عالم نہیں ہوتا۔اس لئے دھیان اگر لمحہ بھر کو دائیں بائیں سے گھوم آئے تو بہت سی خبریں لے کر ذہن میں دوبارہ پھیلی ہوئی ڈوری کی طرح گول گول گھوم کر اپنی پھرکی پر از سرِ نو لپیٹ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح کی ایک صبح ٹھنڈی ٹھار اور برفیلی صبح کے وقت مجھے تہہ خانوں والے مکانات دیکھنے کو ملے تو دیکھتے ہی پیچھے چلے جاتے تھے۔ پھر ایک او رمکان پر نظر پڑتی۔میں سوچ میں تھا کہ اینٹیں جوڑ کر دیوارچڑھانے سے مکانات تو بن جاتے ہیں۔مگر کیا اس مکان کے اندر گھر بھی بنتا ہے کہ نہیں۔محبت برداشت رکھ رکھاؤ تہذیب شائستگی امن آشتی صلح سلوک نیک برتاؤ جس چاردیواری کے اندر کے کرداروں کے درمیان ہو وہی چاردیواری جو باہر سے مکان نظر آئے گی مگر گھرکہلانے لگے گی لیکن یہ نعمتیں اگر وہاں نہ ہو ں وہ مکان بھی تو کیاقید خانے سے کم نہ ہوگا۔ہر چند کہ وہاں سو طرح کی بے شمار نعمتیں موجودہوں۔