ترقی کا چینی ماڈل

کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح یہی ہوتی ہے اس کے زیر سایہ تمام شہریوں کو زندگی کی تمام لوازمات سہولت کے ساتھ مہیا ہوں اور ملک ترقی کی منازل طے کرتا رہے، تاہم یہ سب کچھ کرنا کہنے میں تو آسان ہے، عملاً یہ ایک بہت مشکل اور صبر آزما مرحلہ ہے جس کے حصول کیلئے عشروں کی پلاننگ اور اس پر موثر انداز میں عملدرآمد شرط ہے۔ ترقی کی دوڑ میں شامل وہی اقوام ہی آگے نکل سکتی ہیں جو دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستقل کی پلاننگ کریں، ہمارے پڑوس میں ہی اس کی بہترین مثال چین کی صورت میں موجود ہے جو پاکستان کا ایک بہترین دوست ملک بھی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا خوش آئند ہے کہ پاکستان میں غربت کے خاتمے کیلئے چینی اصول سے رہنمائی لینا اور چینی ترقیاتی ماڈل کی تقلید کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم نے سچ کہا کہ چین نے 40سال محنت کی اور اپنی معیشت کو ترقی دے کر لوگوں کو غربت سے نکالا اور چونکہ ان کا بھی بنیادی مقصد لوگوں کو غربت سے نکالنا ہے، اس لئے پاکستان میں غربت کے خاتمے کیلئے وہ چینی اصول سے رہنمائی لینا اور چینی ترقیاتی ماڈل کی تقلید کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس ماڈل کے ذریعے چین نے اجتماعی طور پر سبھی کو ترقی میں حصہ دار بنایا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تمام ملک جو پائیدار ترقی چاہتے ہیں وہ چین کے ماڈل سے سیکھ سکتے ہیں، چین میں ہر شعبے نے ترقی کی، ہم وہی ماڈل اپنانا چاہتے ہیں ایک ایسے موقع پر کہ جب وزیر اعظم پاکستان چین کے دورے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور سرمائی اولمپکس مقابلے جو چین میں منعقد ہونے جار ہے ہیں کہ موقع پر چین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے جار ہے ہیں، چینی ماڈل کو ترقی کی مثال بناکر اس پر عمل پیرا ہونے کی بات یقینااہم ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ غربت کے خاتمے کیلئے ہم چین کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔تاہم ہمیں معیشت کوبہتر کرنے کیلئے بہت دور اندیشی کے ساتھ اور خلوص نیت سے پلاننگ کی ضرورت ہے جس کی طرف ماضی میں توجہ نہیں دی گئی۔ایک اور شعبہ جس کی طرف وزیر اعظم نے اشارہ کیا اور جو یقینا پاکستان کی پائیدار ترقی میں اہم کردار ادا کریگا وہ زرعی پیداوار بڑھانا اور اس شعبے کو بہتر بنانا ہے، زراعت اور لائیواسٹاک کے شعبے میں چین کی پیروی اگر کی جائے تو کوئی وجہ نہیں یہ شعبہ جسے ہم زبانی تو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہیں مگراسے ہر دور میں نظر انداز کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کاد ورہ اس حوالے بھی اہم ہے کہ چین میں منعقدہ کھیلوں کے مقابلوں کاامریکہ سمیت اس کے اتحادی اور ہمنوا ممالک نے سفارتی بائیکاٹ کیا ہے،کھیلوں کو بین الاقوامی سیاست کی بھینٹ چڑھانا ہر لحاظ سے غلط ہے، امریکہ چین سے حائف ہے جسے دنیا بھر میں اثر رسوخ مل رہا ہے، وزیر اعظم کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ پاکستان اور چین خنجراب کے آس پاس کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہتے ہیں جسے کورونا وبا سے سخت نقصان پہنچا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ امریکہ کبھی بھی اس خطے کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ اس طرح وہ عالمی مالیاتی اداروں اور امریکہ کے دست نگر نہیں رہیں گے۔افغانستا ن میں امریکہ نے کئی دہائیاں گزار کر بھی اس پسماندہ ملک کی حالت بدلنے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ انیس سو اسی کی دہائی میں جب سوویت یونین افواج افغان مجاہدین اور امریکہ کی مشترکہ جنگی حکمت عملی کے نتیجے میں افغانستان سے پسپا ہوئیں تو ان دنوں ایک عام افغانی کے دل میں امریکہ کیلئے خیر سگالی کا بڑا جذبہ موجزن تھا وہ ایک نادر موقع تھا کہ امریکہ اسے کیش کر سکتا تھا اگر امریکہ اس وقت افغانستان کے ٹوٹے پھوٹے انفراسٹرکچر میں بھاری سرمایہ کاری کرتا بالکل اسی طرح کہ جس طرح اس نے مارشل پلان کی طرح دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یورپ میں کی تھی تو و وہ عام افغانیوں کے دل جیت سکتا تھا پر اس نے ایسا نہ کیا اور جوں ہی افغانستان سے سوویت افواج باہر نکلیں تو امریکہ بھی چپکے سے وہاں سے نکل گیا اور پھر دوبارہ جب بیس سال کیلئے امریکہ افغانستان آیا تو وہ بھی آبادی کیلئے نہیں بلکہ بربادی کیلئے۔اب وقت آگیا ہے کہ خطے کے ممالک چین کے ساتھ مل کر ایشیا میں امریکہ کی ریشہ دوانیوں کاراستہ روکیں۔