کرکٹ کے قومی مقابلوں ’پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل)‘ کھیلنے والی تمام ٹیمیں ہی پاکستانی ہیں لیکن کھیل کا مزا اُس وقت تک نہیں آتا جب تک اِس میں حریف میں نہ ہوں۔ ایسی ہی دو روایتی حریف ٹیمیں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی ہیں جن کا پی ایس ایل سیون سیزن آمنا سامنا ہوا تو شائقین کو معیاری کرکٹ کے علاوہ حریف والے پہلو سے بھی خوب مزا آیا۔ پشاور نے ناقابل شکست رہنے کی اپنی خوبی برقرار رکھی جو کوئٹہ کے خلاف پچھلے دو سالوں سے برقرار ہے اور سیزن سیون کے مقابلوں میں پہلا مقابلہ بھی پشاور کے نام رہا۔ پشاور نے کوئٹہ کی جانب سے دیا گیا 191رنز کا (بظاہر بہت بڑا) ہدف دو گیندوں پہلے حاصل کرکے کوئٹہ کو پانچ وکٹوں سے شکست دی تو یہ پشاور کی کوئٹہ کے خلاف مسلسل پانچویں جیت تھی۔ دونوں ہی ٹیموں کو اوپنرز کے حوالے سے مسائل کا سامنا تھا کیونکہ کوئٹہ کے دونوں اوپنرز جیسن روئے اور جیمس وینس ویسٹ انڈیز میں قومی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں تو پشاور کے اوپنر کورونا کا شکار ہوکر پہلے میچ سے باہر تھے۔ اس کے علاوہ پشاور کے کپتان وہاب ریاض بھی کورونا کا شکار تھے اور پہلا میچ نہیں کھیل رہے تھے یوں کپتانی کی ذمے داریاں پشاور زلمی کے سب سے تجربہ کھلاڑی شعیب ملک کے کاندھوں پر تھی لیکن اچھا یہ ہوا کہ شعیب ملک ٹاس جیت گئے کیونکہ کراچی کی کنڈیشن میں ٹاس جیتنا آدھا میچ جیتنے کے برابر ہے لہٰذا شعیب ملک نے وقت ضائع کئے بغیر اور کسی دوسری سوچ کے آنے سے قبل ہی کوئٹہ کو بیٹنگ کی دعوت دی اور خود ساتھیوں کو لے کر فیلڈنگ کے لئے پہنچ گئے۔ کوئٹہ کی طرف سے احسن علی اور وِل اسمیڈ کی نئی نویلی جوڑی بیٹنگ کرنے کے آئی اور پھر کیا خوب بیٹنگ کی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ہمت ِمرداں مدد خدا بالکل ایسا ہی ہوا کہ دونوں نوجوانوں نے کھل کر بیٹنگ کی اور پھر قسمت نے بھی خوب ساتھ دیا یعنی وِل اسمیڈ کے دو آسان کیچ ڈراپ ہوئے اور احسن علی کا آسان کیچ امام الحق نے چھوڑ دیا۔ ان مواقعوں سے دونوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پھر بہترین بلے بازی سے کئی ریکارڈز قائم کر دیئے۔ اس نوجوان اوپننگ جوڑی نے کوئٹہ کی طرف سے ایک سو پچپن رنز کی اوپننگ شراکت کا ریکارڈ بنایا۔ پشاور زلمی کے خلاف بھی یہ کسی بھی اوپننگ جوڑی کا بہترین سکور تھا۔ احسن علی نے چھیالیس گیندوں پر 73رنز اور وِل اسمیڈ نے باسٹھ گیندوں پر 97رنز کی اننگ کھیلی اور یوں کوئٹہ کا سکور صرف چار وکٹوں کے نقصان پر 190رنز تک پہنچا دیا۔ میچ میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب لگا کہ کوئٹہ کی ٹیم باآسانی دوسو رنز کی نفسیاتی حد کو عبور کر جائے گی لیکن پھر سولہویں اوور میں عثمان قادر نے صرف ایک رن دے کر دو وکٹیں لیں اور یوں سکور کے بہاؤ پر بند باندھ دیا۔ عثمان قادر جن کے پہلے اوور میں چودہ رنز بنے تھے انہوں نے اگلے تین اوورز میں صرف چھ رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں اور کوئٹہ کو 190رنز تک محدود کردیا‘ یہ دباؤ کے ماحول میں عثمان قادر کی بہترین گیند بازی تھی۔ آخری اوورز میں پشاور کے فاسٹ باؤلرز نے بھی اچھا کم بیک کیا اور آخری پانچ اوورز میں صرف پینتیس رنز دیئے۔ اگر آخری پانچ اوورز میں زلمے اچھی باؤلنگ نہ کراتے تو یقینا میچ کوئٹہ کے حق میں ہو جاتا۔ جوابی بیٹنگ میں پشاور کی جانب سے ڈیبیو کرنے والے اوپنر یاسر خان نے ساتھی اوپنر ٹام کیڈمور کے ساتھ مل کر پشاور کو فلائنگ سٹارٹ دیا۔ یاسر خان نے صرف بارہ گیندوں پر تیس رنز بنائے۔ بعد میں آنے والے بھی سبھی بلے بازوں نے تیزی سے رنز بنائے۔ پشاور کی تین وکٹیں ضرور گِرگئیں لیکن رن ریٹ میں کمی نہیں آئی‘ خاص طور پر حسین طلعت کے تیزی سے بنائے گئے باون رنز نے پشاور کی بیٹنگ سے دباؤ ختم کردیا۔ کوئٹہ کے نسیم شاہ کے دو بہترین اوورز نے پشاور کے لئے مشکلات ضرور پیدا کیں اور پشاور کو جیت کے لئے آخری دو اوورز میں چھبیس رنز چاہئے تھے لیکن جیمز فالکنر کے اُنیسویں اوور میں تجربہ کار کپتان شعیب ملک نے بائیس رنز بناکر میچ کا پانسہ پلٹ دیا اور پشاور زلمی نے دو گیندوں پہلے ہی سکور پورا کرکے کوئٹہ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ شعیب ملک نے بہترین اننگ کھیلی اور ناقابلِ شکست اڑتالیس رنز بنائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پشاور نے دلیری کے ساتھ بیٹنگ کی اور ایک مشکل ہدف کو باآسانی حاصل کرلیا‘ پشاور کی بیٹنگ کو کریڈٹ دینا بنتا ہے لیکن اس میں کوئٹہ کی ناقص منصوبہ بندی‘ دفاعی حکمتِ عملی اور کپتان کا بروقت باؤلنگ میں تبدیلیاں نہ کرنا بھی ہار کا سبب بنا۔ تاہم ابھی پی ایس ایل سفر کا آغاز ہے اور تمام ٹیموں کے پاس آگے نکلنے کی انگنت امکانات روشن ہیں۔