مغرب کی پراسرار خاموشی

عمران خان کا یہ بیان بڑا معنی خیزہے کہ کشمیر پر مغرب آخر خاموش کیوں ہے اسی طرح عمران خان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ اگر دنیا نے افغانیوں کی موجودہ حالت زار پر ان کی امداد نہ کی تو اس بات کے امکانات ہیں کہ افغانستان ایک مرتبہ پھر جنگ و جدل کا شکار ہو جائے جو بعد میں جنگ عظیم کی شکل اختیار کر سکتا ہے یہ اب اقوام متحدہ کے کرتا دھرتوں کا فرض ہے کہ وہ ان دو اہم مسائل کا حل نکالیں کہ جن کی وزیراعظم صاحب نے نشان دہی کی ہے ورنہ خدشہ یہ کہ جس طرح لیگ آ ف نیشنز بے حسی کا شکار ہو کر اپنی طبعی موت مر گئی تھی اقوام متحدہ کا بھی کہیں ویسا ہی حشر نشر نہ ہو جائے اور جس طرح دنیا کے حالات ابتری کی طر ف جا رہے ہیں وہ کوئی نیگ شگون نہیں کیونکہ طاقتور ممالک کسی قاعدے اور قانون کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں، خاص کر مسلمان ممالک کے حوالے سے ان کی پالیسی امتیازی ہے، جس کی طرف وزیر اعظم نے اشارہ کیا کہ مغربی اور یورپی ممالک کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جس سے مودی حکومت کو شہ مل رہی ہے اور وہ کشمیر میں مسلمانوں کی مستقل بنیادوں پر نسل کشی میں مصروف ہے بلکہ اب تو یہ سلسلہ کشمیر سے پورے بھارت تک وسیع ہوگیا ہے اور پورے ملک میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی گئی ہے۔اس طرح وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا بھی اہم ہے کہ اسلام و فوبیا کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششوں کو تیز کرنا ہوگا۔انہوں نے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے اس بیان کے حق میں ٹوئٹ کی ہے جس میں کنیڈین وزیر اعظم نے اسلامو فوبیا کی مذمت کی تھی۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی اسلامو فوبیا کی مذمت کا خیرمقدم کرتا ہوں، اور ان کے اس اقدام کو سراہتا ہوں جو انہوں نے اسلامو فوبیا جیسی لعنت سے نمٹنے کیلئے خصوصی نمائندہ مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل روس کے صدر نے بھی کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا تھا جس کی وزیر اعظم نے ستائش کی تھی۔دیکھا جائے تو اسلامو فوبیا کے مسئلے کو عالمی سطح پراٹھانے والے وزیر اعظم عمران خان ہی ہیں جنہوں نے اقوا م متحدہ کے خصوصی اجلاس میں اسلامو فوبیا کی طرف توجہ دلائی تھی اور اس اہم نکتے پر مدلل خطاب کیا تھا۔یہ امر بھی خطرناک ہے کہ باوجود کوشش بسیار ابھی تک وطن عزیز کے دشمن افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے اندر تخریبی کاروائیوں کیلئے استعمال کر رہے ہیں اور ضمن میں ہونے والے تمام سیاسی مذاکرات کا کوئی خاص نتیجہ سامنے نہ آسکا۔ تاہم یہ بہت اہم پیش رفت ہے کہ زیادہ تر پاک افغان بارڈر پر باڑلگ چکی کی ہے اور اب یہ سرحد ماضی کے مقابلے میں کافی حد تک محفوظ ہے۔پھر بھی اس حوالے سے خصوصی مانیٹرنگ کی ضرورت ہے۔دوسری طرف تائیوان کو آزادی دلانے کی امریکی سازش سے پردہ فاش کرتے ہوئے چین نے امریکہ کو فوجی تصادم کی دھمکی دے دی ہے۔نیو یارک پوسٹ کے مطابق امریکہ میں چین کے سفیر کن گینگ نے کہا ہے کہ تائیوان کی حیثیت سے متعلق مسئلے پر چین اور امریکا میں تصادم کا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے تائیوان کو آزادی حاصل کرنے کیلئے اُبھارا جارہا ہے، اگر تائیوان کے حکام امریکہ کی شہ پر اسی روش کو اپناتے رہے تو بہت ممکن ہے امریکہ اور چین میں فوجی تصادم ہوجائے۔