جان ہے تو جہاں ہے

شام ڈھلے کچھ اجنبی اور اوپرے راستوں پر پولیس کے باوردی پا پیادہ کسی موڑ پر کھڑے ہوں گے۔ ہاتھ میں ٹارچ ہوگی۔ ٹارچ کی روشنی سے صورتِ حال کو کنٹرول کریں گے۔جیسے لائٹ کی دھار نہ ہو بلکہ ہاتھ میں بڑا سا ڈنڈا تھام رکھا ہو۔آتے جاتے روکتے ہیں۔ اچھا کرتے ہیں۔ہمیں نہیں روکتے۔ کیونکہ مجرموں کا اپنا چہرہ مہرہ ہوتا ہے۔جن کو یہ لوگ اپنے تجربے کی روشنی میں اندھیرے میں دیکھ کر پہچان نہ سکیں تو مشکوک سمجھ کر روکتے ہیں۔یہ سرکاری لوگ تاریک راہوں میں ہر پر اسرار موڑ پر موجود ہوتے ہیں۔کبھی با وردی اور کبھی سادہ کپڑو ں میں۔ان کو مخبر شہر کا حال بتلاتے رہتے ہیں۔یہ پھر بھی مجرموں پر ہاتھ نہ ڈال سکیں تو افسوس کے ہاتھ ملنے کے سوا ہم اور کیاکر سکتے ہیں۔یہ اگر نہ جاگیں تو ہم لوگ کیسے سو سکیں گے۔ ہمیں تو اس لئے نہیں روکتے کہ وارداتوں کے عادی مجرمو ں کے پتلے سوکھے جسم ہو تے ہیں جو موٹر سائیکل چھوڑکر بوقتِ ضرورت الٹے قدموں ہرن کی سی تیزی کے ساتھ بھاگ کر کھیتوں اور تاریک گلی کوچوں میں روپوش بھی ہوجاتے ہیں۔مگر ہمارے بھاری بھرکم جسم کو دیکھ کر ان کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ شریف آدمی ہے۔ پھر شریف شہری کی ایک شناخت یہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ بائیک پر بیوی بچے بھی سوار ہوں۔پھراگر یہ سب کچھ نہ ہو تو سودا سلف کے کچھ بھرے پُرے شاپر بھی موٹر بائیک پر ٹنگے ہوتے ہیں۔جن سے اس بائیک کے گھڑ سوار کی سستی کا اندازہ لگا کر اس کو جانے دیا جاتا ہے۔کیونکہ وارداتیں کرنے والے لڑکے بالے ہوتے ہیں۔پھر اکثر دو کی تعداد میں اس لوہے کے گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں۔مگر باوردی لوگوں کے ناکہ لگانے کا اپنا ایک ٹائم مقرر ہے۔ہر چند جگہ مخصوص نہ ہو۔کبھی کہیں او رکبھی کہیں کھڑے ہوتے ہیں۔ مگر زیادہ تر شہرکی حدود ہی میں اپنے فرائض انجام دیئے جاتے ہیں۔پھر یہ تو اب سے نہیں۔جب سے ہم نے ہوش سنبھالا اور بچپن سے لڑکپن اور پھر جوانی کی دہلیز میں قدم رکھا ہے۔یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اتنی ناکہ بندیوں کے باوجود سٹریٹ کرائم ماضی میں بھی او راب ہو رہے ہیں۔ ان میں کمی درکار تھی۔مگر اتنے سالو ں بیت جانے کے بعد بھی وہی کا وہی عالم ہے۔ مقصد یہ ہوا کہ وارداتیں اب بہت زیادہ ہو چکی ہیں۔ایک رائے تو یہ بھی ہے کہ موبائل کی وجہ سے بھی ان وارداتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔اکثر شہریوں کے پاس موبائل ہوتے بھی بہت قیمتی ہیں۔پھر یہ چوروں کے ہاتھوں سے اونے پونے داموں ہاتھوں ہاتھ بک جاتے ہیں۔ خریدار کو بھی معلوم ہوتا ہے چوری کا مال ہے سستے میں مل جائے گا۔ پھر اس کو شوکیس میں رکھ کر مہنگے داموں فروخت کریں گے۔مگر سوال ہے کہ وارداتیں پہلے کیوں کم تھیں اور اب شرح میں اضافہ کیوں ہو چکا ہے۔موبائل کا معاملہ کیش کا معاملہ ہے۔ اب تو ہر ایک کے پاس موبائل ہے۔اگر سونا ہے تو ہر شہری کے پاس نہیں۔پھر اگر کسی کے پاس ہے تو وہ اس کو ہر وقت ساتھ لے کر نہیں گھومے گا۔ مگر موبائل کا آئیٹم ایسا کیش ہے جو ہر ایک پاس کے پاس اگر روپے نہ بھی ہوں تو ضرورت کیلئے جیب میں ہوتا ہے۔جس کو چھین کو دوسرے کے ہاتھ پر رکھ کر سستے مول فروخت کر کے اپنی راہ لینا اور پھر دوسری واردات کیلئے تیاری کرنا آسان کام بن جاتا ہے۔سو اب تو حال یہ ہے کہ گھر والے اپنے لڑکے بالوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ اگر اس قسم کی صورت حال میں پھنس جاؤ تو حوالے کرو موبائل اور اپناپِنڈ چھڑاؤ گھر پہنچو اللہ اور دے گا۔ کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔جان باقی ہوگی تو دوبارہ بھی موبائل خرید لیں گے۔اس کے تدارک کیلئے ملک کے معاشی نظام کا مضبو ط ہونا ضروری ہے۔