سینیٹ: قانون سازی اور منصوبہ بندی

پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سینیٹ میں حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھے ہوئے چھ آزاد سینیٹرز کے گروپ کی جانب سے تین ماہ سے بھی کم مدت میں دوسری بار دھوکا کھانے کے بعد نئی حکمت عملی وضع کرنا چاہتی ہے کیونکہ سینیٹ میں حزب اختلاف کی اکثریت کے باوجود بھی ”سٹیٹ بینک ترمیمی بل“ منظور کروانے میں حکومت کامیاب رہی ہے جس کے بعد پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ”حزب اختلاف کی جماعتوں کو ان نرم دل اراکین اور سینیٹرز کا صفایا کرنا چاہئے جو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھتے ہیں لیکن ووٹ حکومت کو دیتے ہیں۔بنیادی بات یہ ہے کہ سینیٹ میں اکثریت کے باوجود حزب اختلاف ایک بار پھر ناکام جبکہ حکومت ایک مرتبہ پھر کامیاب ہوئی ہے‘ جو بہتر منصوبہ بندی اور سیاسی معاملات پر تحریک انصاف کی گرفت ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔سینیٹ میں سٹیٹ بینک ترمیمی بل ایک ووٹ کی برتری کے ساتھ منظور کرنے جیسی صورتحال کا ڈراپ سین اُس وقت ہوا جب چیئرمین سینیٹ نے حکومت اور حزب اختلاف کے ووٹ برابر ہونے پر اپنا ووٹ حکومت کے حق میں ڈالا جبکہ اپوزیشن لیڈر سید یوسف رضا گیلانی سمیت اپوزیشن کے 9 ارکان ہاؤس میں موجود نہیں تھے۔ اجلاس کے آغاز میں اپوزیشن ارکان کی اکثریت دیکھ کر وزیر خزانہ شوکت ترین نے متذکرہ ترمیمی بل پیش نہ کیا۔ اس دوران اپوزیشن ارکان کی جانب سے احتجاج اور نعرہ بازی کرتے ہوئے بل ہاؤس میں پیش کرنے کا تقاضا کیا گیا۔ چیئرمین سینیٹ نے اجلاس تیس منٹ کے لئے ملتوی کیا اور جب دوبارہ اجلاس شروع ہوا تو وزیر خزانہ نے متذکرہ بل اجلاس میں پیش کر دیا جس پر ووٹنگ کرائی گئی تو بل کے حق اور مخالف میں مساوی بیالیس بیالیس ووٹ پڑے چنانچہ چیئرمین سینیٹ نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے بل کے حق میں ووٹ ڈالا اور اکثریت رائے کے ساتھ اس بل کی منظوری کا اعلان کر دیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سینیٹ میں  ایک غیر جانبدار گروپ سمیت اپوزیشن کے ارکان کی مجموعی تعداد ستاون ہے جبکہ حکومتی ارکان کی تعداد بیالیس ہے۔ اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن کو پندرہ ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے۔ گزشتہ روز اپوزیشن کے 9 ارکان موجود نہیں تھے جن میں سے یوسف رضا گیلانی‘ ملک نور ربانی کھر کی رسم قل میں شرکت کے باعث لاہور نہ آسکے جبکہ نزہت صادق ملک میں عدم موجودگی اور سید مشاہد حسین کورونا میں مبتلا ہونے کے باعث اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ اس کے برعکس کورونا کی شکار پی ٹی آئی کی سینیٹر زرقا تیمور کو حکومتی تعداد پوری کرنے کے لئے آکسیجن لگا کر ہاؤس میں لایا گیا جبکہ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کے سینیٹر طلحہ محمود بھی ہاؤس میں موجود نہیں تھے۔ سینیٹ کا   ایک خاص گروپ سید یوسف رضا گیلانی کے بطور اپوزیشن لیڈر انتخاب کے موقع پر اپوزیشن بنچوں کا محرک ہوا تھا تاہم یہ گروپ حکومت کے لئے چیلنج بننے والی قانون سازی کے موقع پر حکومت کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ اگر گزشتہ روز  اس گروپ کے ارکان اپوزیشن کے ساتھ کھڑے رہتے تو ہاؤس میں اپوزیشن کے 9 ارکان کی عدم موجودگی کے باوجود حکومت کیلئے سٹیٹ بنک ترمیمی بل منظور کرانا ناممکن ہو جاتا مگر اس گروپ نے بل کے حق میں ووٹ ڈال کر حکومتی سرخروئی آسان بنادی یقینا سینیٹ میں واضح اکثریت کے باوجود حزب اختلاف کا مذکورہ بل کی منظوری کیلئے سدِراہ نہ بن پانا اس امر کا بین ثبوت ہے کہ حکومت کو ہاؤس کے اندر سے کسی تبدیلی کا کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ قومی اسمبلی میں ویسے ہی سرکاری بنچوں کے پاس عددی اکثریت موجود ہے جس کے بل بوتے پر حکومت کو ’ایف اے ٹی ایف کے حوالے سیتیس سے زائد قوانین میں ترمیم کا بل منظور کرانے اور اسی طرح ’منی بجٹ‘ منظور کرانے اور پھر سٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ کو منظور کرانے میں کوئی دقت و پریشانی نہیں اٹھانا پڑی۔